تیری فرقت کہ مار ڈالے گی
میری کلفت کہ مار ڈالے گی
زندگی غم میں کیا گزرتی تھی
پل کی راحت کہ مار ڈالے گی
آ تجھے یہ بتاتا ہوں سن لے
تیری رخصت کہ مار ڈالے گی
سوچتا رہتا ہوں کبھی کیا کچھ
عقل زحمت کہ مار ڈالے گی
شام ڈھل کر عجیب ہوتی ہے
مستی راحت کہ مار ڈالے گی
میں نے کاشف کہ ٹھان لی ہے اب
چاہے چاہت کہ مار ڈالے گی
-----------------------------
بحر : خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
وزن : فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن

0
56