جب بے خودی چھا گئی ہو عالم فقیری میں
تو خاک مزہ رہ گیا یارو امیری میں
میری داستان حیات دو پلوں کا ہی قصہ تھی
اک محبت میں کٹا، دوجا تیری اسیری میں
گزرتے وقت سے گر ہو جاتے جذبے ناپید
یہ کیسی نئی آگ بھڑک اٹھی ضعف پیری میں
دلوں کے سنگم میں ہی جنم لیتی ہے سچی محبت
نا غرض اقرار زبانی ہے، نا کسی معاہدہ تحریری میں
چھایا فقر تو کرے صبر ، ملی نعمت تو کرے شکر
یہی مومن نے سیکھا ہے اسوہ شبیری میں
فیض بوتراب کا خوشگوار اثر تھا کاشف
حکومتیں شاندار بنیں علی کی مشیری میں

0
89