مِرے ماضی میں کیا ہے فقط راکھ کے سِوا
بچا کیا ہے اس زخمی ہوئی آنکھ کے سِوا
اڑا لے گیا تھا عشق اک جست میں لگا
کبھی دیکھوں سب افلاکِ نم پاکھ کے سِوا
ہمیں نا بتاؤ تم کہ قربانی کیا ہے دی؟
میں نے سب لٹایا ہے مگر ساکھ کے سِوا
کدھر یار کی غربت، مِری تھی امیری پس
نہ ظالم نے مانگا مجھ سے پر لاکھ کے سِوا
کسِے شوق مے کاشف، مِری توبہ توبہ ہے
پیا میں نے ہر مشروب رس داکھ کے سِوا

0
59