جام سے پی تم یاد آۓ
روح جو چلی تم یاد آۓ
سکوں کی تلاش میں
جدھرنظر کی تم یاد آۓ
تنہائی کے طلسم میں
شب نہ گزری تم یاد آۓ
اس غم کی انتہا نہیں ہے
ملی جب خوشی تم یاد آۓ
ابتلا کا دور جاتا نہیں
دعوت عشق تھی تم یاد آۓ
درد ہے یہ دل بے بس کی
جب بھی اٹھی تم یاد آۓ
کسی اور کی محبت سے
کر کے بے رخی تم یاد آۓ
ایسے دن جو باقی بچے ہیں
صبح شام افسردگی تم یاد آۓ
خاک کی سنگت میں کاشف
جب ذات مٹی تم یاد آۓ
(کاشف علی عباس )

42