کیا کیا کچھ تو بتا چکا ہوں میں |
سارا خطرہ اٹھا چکا ہوں میں |
جانب منزل راستہ نظر میں ہے |
چلتے چلتے بھلا چکا ہوں میں |
اس کا آیا بلاوہ تو بھاگا |
ایسے خود کو تھکا چکا ہوں میں |
یہ آزارِ دل ابھی کم ہیں |
لڑتے لڑتے ہرا چکا ہوں میں |
جس کی خاطر جیا تھا اب اس سے |
رشتہ ناطہ مٹا چکا ہوں میں |
پیمانہ کچھ بھرا تو تھا لیکن |
عجلت میں تھا، گرا چکا ہوں میں |
تیری جھوٹی کہانياں ہی ہیں |
سن سن کر تنگ آ چکا ہوں میں |
وہ شیریں لب کہ جام بھی مست ہے |
کیا کاشف کو سلا چکا ہوں میں |
شاعر : کاشف علی عبّاس |
معلومات