میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ جب کسی سے زبان کی اغلاط اکثر نا دانستہ سرزد ہو جائیں تو چند اردو طلبا نقاد آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ منٹو صاحب نے اپنے مضامین میں اس چیز کو  " کڑوی کوفت" کا نام دیا تو کرنل محمد خان نے بجنگ آمد کو آدم جی ایوارڈ نا ملنے کی وجھہ ایک پختہ نقاد کی زبان کی غلطیوں پر بجنگ آمد کو مسترد کرنا بتائی۔ اصلاح یعنی کسی بھی تحریر کی ادبی اصلاح ایک ادب و قرینہ ملحوظ خاطر رکھ کر ہونی چاہیے مگر ایسا کم دیکھا جاتا ہے اور بڑے حوصلہ شکن قسم کے لٹھ مار انداز میں بے رحمانہ تنقید روا رکھی جاتی ہے ۔ جس کا نتیجہ صاحب تحریر کا لکھنے سے مکمل دست برداری کی صورت میں نکلتا ہے ۔یہ سرا سر غلط رویہ ہے ۔ متوازن تنقید کے ساتھ کچھ حقیقی تعریف بھی شامل ہو تو سب ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے گا ۔ میرا اپنا سامنا ایسے ہی نقاد سے جب پڑا تو میں نے اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں  دیا بلکہ توپ کے گولوں کی صورت میں جوابی تابڑ توڑ حملے کر دیۓ ۔وہ بیچارہ نقاد آج بھی زخم چاٹتا ہے ۔مگر یہ پرانی بات ہے اب میرا طریقہ بلکل مختلف ہوتا ہے ۔ یعنی تبصرے کو اسکین کرتا ہوں کہ آیا اس میں کوئی کام کی بات ہے یا نہیں اور اگر ہو تو اس کو سنجیدہ لے کر اپنی  اصلاح کرتا ہوں اگر صرف حوصلہ شکن قسم کی بے سروپا تنقید ہے تو *شکریہ* ادا کر دیتا ہوں ۔مگر تنقید براۓ تنقید ہر گز نہیں کرتا ۔ یہی بہترین طریقہ ہے جس سے انسان وقت بھی بچا تا ہے اور موڈ بھی اچھا رہتا ہے ۔۔۔مگر یہ تمہید صرف اس لئے باندھ رہا ہوں کہ چند دنوں سے کچھ ایسا پڑھنے کو مل رہا ہے کہ اس تحریر کی تلخی مزاج میں رچ بس چکی ہے ۔


ایک محترمہ ہیں جن کا لکھا دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ چند سر پھرے اردو نقاد ان پر کھلا چھوڑ دوں ۔یعنی اس قدر لغو انداز بیان، چھچورا پن لکھنے کا طریقہ ، جگت آمیز طرز تحریر اور سب سے اوپر یہ کہ اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دیں اور چند لوگ واہ واہ اور داد دے رہے ہیں ۔اردو ادب پہ یہ کیسا منحوس وقت آ چکا ہے کہ کمرشل قلم پکڑ کر کیسے چند لوگ اردو کا سر عام قتل کر رہیں ہیں اور ان کے کریزی فین اس پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں ۔بہت افسوس ہوتا ہے یہ سب پڑھ کر اور دیکھ کر دل اداس ہوتا ہے ۔۔۔


میں جانتا ہوں کہ آج کل سنجیدہ قاری یا ادب پڑھنے اور سمجھنے والے بہت کم ہیں ۔ اور ان کی جگہ ٹک ٹاک یا انسٹا یا یو ٹیوب پر برانگیختہ اور اشتعال انگیز سیکسی تصویر پر چالیس پچاس ہزار لایکس دینے والوں نے لے لی ہے تو جن کا معیار ہی ادھ ننگی لڑکی کی ریل پر اندھا دھند لایکس اور کمنٹس ہو ان سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ آپ کو یقین نہیں آتا؟ تو کبھی یونہی فیسبک یا ٹک ٹاک یا انسٹا پر سکرول کر کے دیکھیں ہر دوسرا اشتہا ر اور تصویر اور ویڈیو فحش ملے گی ۔ دیکھیں آرٹ اور چیز ہے ۔ نیوڈ پینٹنگ یا سکلپچر جیسے مائیکل اینجلو کا یا ریمبرانٹ یا پکاسو کی پینٹنگز یا پھر ڈآونچی کی نیوڈز محض آرٹ ہے مگر جو لچر پن آج کل دیکھا جا سکتا ہے اور چند ایک تعمیری لکھنے والوں کو چھوڑ کر جس طرح کے ہنسی ٹھٹے لگانے والے مصنفین اور ان سے دو ہاتھ آگے ان جیسے قارین آ چکے ہیں تو سنجیدہ اور معیاری  اردو ادب روز بہ روز قتل ہو رہا ہے ۔


ایسے لوگ آج چند پیسے کما بھی لیں کہ کمرشلزم ہے، ڈرامے لکھنے کے بھی اچھے پیسے مل جاتے ہیں ،مگر اردو ادب میں یہ ہرگز شامل نہ ہوں گے اور  آیندہ صدیوں میں اپنا نام ڈھونڈتے رہ جائیں گے ۔ کیوں کہ وقتی تمسخر سے بتیسی تو نکل آتی ہے مگر بعد میں ادبی سنجیدہ ادب اور کوالٹی کا ادب ہی اپنی جگہ بناتا ہے ۔فی الحال تو اردو ادب بے ادب ہو چکا ہے


0
58