کب سرشت انساں بھی بدلتی ہے
یہ ہوس تو زیادہ بڑھتی ہے
شرم اس کو ذرا نہیں آتی
بُھولا احسان عقل مرتی ہے
ڈھونگ تیرا کُھلے گا اب جلدی
دنیا جو کرتی ہے، وہ بھرتی ہے
چال قسمت چلے، رہے گم صم
اب کہ کیوں روتا ہے؟ جو پڑتی ہے
کامیابی دغا لگی کاشف
ہر ریاکار کو یہ ملتی ہے
بحر : خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
وزن : فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن

0
68