اداس شام تھی یونہی چھڑ گیا تیرا ذکر
یادوں کا اک سلسلہ تھا اور ماضی کی خبر
وہ کیا سہانی رت میں ہم ملے تھے، یاد ہے؟
تجھے تکتے رہنا، جب گھر کو چلے تھے، یاد ہے؟
وہ تیز بارش میں بھیگنا، تیرے لئے کچھ خریدنا
تیرا مسکرا کر مان لینا ، میرا خوشی میں بہک جانا
کبھی اک روز نا ملے تو دل ڈوب جاتا تھا
آنکھ بھر آتی تھی ، اور من روٹھ جاتا تھا
وہ سنگ گزارے سب پل کتنے حسین تھے
زندگی جوبن پر تھی،عشق میں فلک و زمین تھے
میں کیسے بھولوں وہ تیرا شرما کر کھانا جینے مرنے کی قسم
ہاں قسمت و مقدر برہم ، کر دیا پیار کرنے والوں پہ ستم
سچ ہی سنا تھا کہ شاید سچے پیار کو نظر لگ جاتی ہے
ملن کے بعد ہجر آتا ہے، دنیا ادھر ٹھگ جاتی ہے
آج سوچتا ہوں کہ آخر جدائی میں کس کا دوش تھا؟
کس نے آگ لگائی، تم چپ تھی میں خا موش تھا
چلو،کیا عشق نے اپنا آپ دکھا کر منہ موڑ لیا
غم جو چھپا تھا آ گیا، اک پیارا بندھن چھوڑ دیا
اب بھی کسی بے خود پہر تم دبے پاؤں چلی آتی ہو
میرا دل خوش ہو جاتا ہے، اور تبھی تم چلی جاتی ہو
سب کچھ تاریک ہو جاتا ہے تیرے جانے کے بعد
وجود پھر سے مکمل کھو جاتا ہے تیرے جانے کے بعد
تم نے مجھے لذت عشق دی،مٹھاس زیست بھی سو شکریہ
کاشف کو مہک و مشک دی، پاس وفا و مروت بھی سو شکریہ
شاعر : کاشف علی عبّاس

0
55