حضرت عمر نے فرات کنارے مرتے بھوکے کتے تک کی ذمہ داری کو ریاست و حکومت پر ڈالا تھا ۔ تو اگر پاکستان کے مجبور عوام بھوکے مر رہے ہوں، تو اس کی سیدھی سیدھی ذمہ داری سابقہ حکومت پر جاتی ہے، جب ملک ناکام ہو چکا ہو تو خود اری، غیرت اور حریت پسندی کی بین ہر گز نہیں بجانی چاہیے ۔ٹیپو سلطان کی مثال تو دیتے ہو یہ بھی بتاؤ کہ اس کے دور میں عوام کتنی خوشحال تھی، امام حسین کا نام تو لیتے ہو مگر کیا ان کے کردار کا پانچ فیصد بھی اتنے سالوں میں نظر آیا ؟
بلا شبہ یہ پاکستان کی ناکام ترین حکومت تھی، جس کے دور میں ہوشربا مہنگائی ، ناکام معشیت ، بیروزگاری اور عوامی زبوں حالی عروج پر رہی۔ خارجہ پالسی میں یک مشت روس کی جانب جھکاؤ احمقانہ فیصلہ تھا- خاص کر جب روس نے جارحیت پسندی کا ثبوت دیا ۔ گداگری اور عالمی کشکول نے ملکی سیاست و سالمیت کے وقار کی دھجیاں اڑا دیں - سونے پر سہاگہ یہ حکومت اپنے ہی وعدے پورے نا کر سکی، نا گھر بنے نا مفت کی نوکریاں ، بلکہ ملک میں کسی طرح کی ترقی نہیں ہوئی (جس پر عوام کا دم گھٹ گیا ) میں سمجھتا ہوں کہ میاں برادران کی حکومت یا کوئی بھی حکومت کم از کم اس تنزلی اور ناکامی کے چوں چوں کا مربہ حکومت سے بہتر ہی ہو گی، نیی حکومت کو ڈالر و پٹرول کی بلا وجہہ اڑ ان کو ضرور مانیٹر کرنا چاہے کیوں کہ یہی مہنگائی کی جڑ اور عوامی دکھتی رگ ہیں ۔
پاکستان زندہ باد
تحریر : کاشف علی عبّاس
معلومات