دیکھ تجھے سب ہوش جاتا گیا |
اور دل تیری ہی طرف کھنچتا گیا |
اگرچہ ترا وجود نہیں ہاتھ تھا |
میں کس خیال میں بہکتا گیا |
سالوں پرانی عشقیہ واردات ہے |
تبھی خمار اس زہر کا بڑھتا گیا |
تم نا ہو کر بھی ہر طرف ہو |
میں ہر شے میں تجھے دیکھتا گیا |
سنو! جی ہاں! تمہی سے مخاطب ہوں |
تیرا جادو سر چڑھ کر بولتا گیا |
آنے دو قضا یارو! بس اتنا ٹھہرو |
مری جان کو آخری سلام پہنچتا گیا |
وہ معصوم فرشتہ سی پیکر ہے |
تبھی ہر ہاتھ دعا کو اٹھتا گیا |
جس دن کھلے گی میری حقیقت تم پر |
ڈھونڈو گے کہ وہ چاند کہاں چھپتا گیا |
مانتا ہوں مجبوری حالات و سماج کو مگر |
تیرے اک میٹھے بول کو ترستا گیا |
ایسا بھی کیا ظلم و ستم کر دیا تجھ پر |
سب احسان میرے یوں بھولتا گیا |
یقین ہے ثواب طاعت و زہد میں مجھے |
پر یہ گناہ گار وہ بھی جانتا گیا |
تجھ سے آفاتی ملکوتی سی محبت ہے |
ایک تو ہے، نئے سوال بناتا گیا |
تم جانتے نہیں؟ ہماری محبت سچی ہے |
میرا شاعری کرنا ہی بتاتا گیا |
اچھے جون و محسن، میر و غالب |
میرا نصیب تیرے کوچے پھراتا گیا |
اے انسان غافل نا بن اور دیکھ |
جدھر عجائب عشق منتظر کراتا گیا |
اس بلا کے آگے لاچار و بےبس ہوں |
عمر بھر ذلت و خواری کرواتا گیا |
خدا کو تھی مقصود میری آزمائش |
تیرے بہانے مجھے خوب آزماتا گیا |
مان لیا! گرے پڑے ہیں خاک پر ہم |
آخر یہ کون ہر بار اٹھاتا گیا ؟ |
اس ناسمجھ نے کب سمجھنا تھا؟ |
میں الگ ناسمجھی میں سمجھاتا گیا |
کاشف ذرا تھامنا مکان و زمان کو تم |
کس خاموشی سے اب شور مچاتا گیا |
دیکھنا اس کے ہاتھ پیر بھی عجب ہے |
سر تا دل تلک کوئی آگ لگاتا گیا |
اے جان کاشف، آن کاشف،سلامت رہو |
تیرا میری زندگی میں آنا، زیست بناتا گیا |
مجھے دلبر کی ہر چال کا علم تھا |
مروت میں چپ رہے، وہ بہلاتا گیا |
کاشف غم ہستی میں مت حساب کر |
کیا کیا کھوتا گیا،اور کیا پاتا گیا |
معلومات