مِری حیات تو ذکر ِ الہی میں بے تاب ہے
ٖ فلاحِ مومنِ نشاطِ حق ہی کامیابَ ہے
کبھی بھی جاہلوں میں بحث نا کرو فضول ہے
سلیقہ بس کہ دور کا بنا ہوا حساب ہے
یہ حال ماضی کا، کہاں ہمیں وہ سب قبول تھا
کہ روز گنتا رہتا ہوں نرا کھرا عذاب ہے
ملائکہ سنائیں گے فضائلِ علی ولی
دھری پڑی رہی کہ ارضی ہر کوئی کتاب ہے
وہ پل ہی بھر میں دیکھنا کمال ایسا کر گیا
خلش سی رہ گئی، کہ حُسن تیرا نایاب ہے
سنو صنم ! وہ تم جو کچھ بتا رہے ہو اب مجھے
ہوں چپ میں ورنہ ہر سوال کا کھڑا جواب ہے
چلو اگر ہے آج عشق کاشفِ لٹا پٹا
نظر تجھی کو ڈھونڈے، تُو کہ میرا انتخاب ہے
شاعر : کاشف علی عبّاس

0
46