کیسا عجب مقدر ہے کہ کیا کیا بنے
وہ غیر کے ہوۓ ، میرے نا بنے
دل اداس کیوں نا ہو ؟ روح کیسے نا تڑپے
اسی زمین پر دونوں ہیں، مگر بات نا بنے
یہ گلے شکوے جو مجھ سے ہیں، بے جا ہیں
مشکل ملن تو ہے، تیری طرف راستہ نا بنے
تم مجھے دیتی ہو جینے کی وجہہ اگر کچھ سمجھو
افسوس کبھی ارادہ ہو کر بھی موقع نا بنے
میں کیسے بھولوں تمھیں جیتے جی ؟ نا ممکن ہے
بدن کیسے زندہ رہے کہ رابطہ روح کا نا بنے
تم وجہہ مقصد کاشف ہو ،تم دل کاشف پہ حکمراں
بنو تو میرے کبھی، پھر دیکھو کہ کیسے جنت نا بنے
شاعر : کاشف علی عبّاس

0
73