چلو بے سبب ہم یونہی مسکرائیں
کہ کچھ دیر ہر رنج و غم بھول جائیں
بہت شور کرتی ہوا چل رہی ہے
جلا کر دیئے اس کا زور آزمائیں
سہیں ظلم چپ چاپ کب تک ہم آخر!
یوں جینے سے بہتر ہے ہم مر ہی جائیں
نہ جانے ہماری چلے سانس کب تک
کیوں گمراہیوں میں یوں عقبیٰ گنوائیں
محبت کی میٹھی زباں بول کر ہم
مخالف کو بھی آؤ اپنا بنائیں
ہو جس قدر ہم سے بنیں ہم سہارا
ضرورت میں ہر اک کی ہم کام آئیں
ہاں یہ زندگی اپنی ہے رب کی نعمت
اسے عیش و عشرت میں کیوں ہم گنوائیں
سحؔر ٹوٹے دل کو چلو جوڑتے ہیں
یہ دل خانۂ رب ہے اس کو سجائیں

188