زیست اپنا وقار مانگتی ہے
گوہرِ آب دار مانگتی ہے
کوئی لیلیٰ پسار کر دامن
اپنے مجنوں کا پیار مانگتی ہے
کون وہ خوش نصیب ہے کہ جسے
زندگی بار بار مانگتی ہے
علم و دانش،محبت و الفت
آگہی اور شعار مانگتی ہے
کتنی مایوس ہے یہ تنہائی
چند خوشیاں اُدھار مانگتی ہے
میرے سینے میں دفن تھی جو کہیں
اب وہ آتش شرارِ مانگتی ہے
زندگی میری اے سحؔر کیونکر
اِک دلِ بے قرار مانگتی ہے

0
194