| تخیل سے مرے وہ شمعِ نورانی نہیں جاتی |
| کہ عاشق زار پروانوں کی نادانی نہیں جاتی |
| بہت چاہا کہ چھٹکارا ملے مجھ کو تردد سے |
| مگر میں کیا کروں میری پریشانی نہیں جاتی |
| بہ کثرت آبرو ریزی کے قصے روز سنتی ہوں |
| مگر پھر بھی یہ عالم ہے کہ حیرانی نہیں جاتی |
| ترے در پر جو آئی ہُوں تو مل کر تُجھ سے جاؤں گی |
| بلا دیدار چوکھٹ سے یہ دیوانی نہیں جاتی |
| وضو کے بعد گل غنچے عبادت رب کی کرتے ہیں |
| اسی خاطر فضا کی شبنم افشانی نہیں جاتی |
| بڑی تیزی سے مغرب کے مقلد بنتے جاتے ہیں |
| خدایا اہلِ مشرق کی یہ نادانی نہیں جاتی |
| نہایا خونِ ملزم سے زمیں کا چپّہ چپّہ ہے |
| عجب محشر بپا ہے جاں کی ارزانی نہیں جاتی |
معلومات