آنکھوں نے کبھی میری یہ منظر نہیں دیکھا |
گرتا ہوا ندی میں سمندر نہیں دیکھا |
دی لاکھ صدائیں مُجھے اُس شخص نے لیکن |
یک بار بھی میں نے اسے مڑ کر نہیں دیکھا |
پل بھر میں وہ قاتل ہے تو پل بھر میں مسیحا |
اُس جیسا عجب میں نے ستم گر نہیں دیکھا |
ہے شاہ اگر کوئی تو ہے کوئی گداگر |
ہر شخص کا اک جیسا مقدر نہیں دیکھا |
چندا جو تکا کرتا ہے حسرت سے زمیں کو |
اُس نے کبھی دھرتی پہ اتر کر نہیں دیکھا |
معلوم کہاں تم کو مرے درد کی شدت |
تم نے کبھی افلاس میں جی کر نہیں دیکھا |
خنجر ہو کہ تلوار سبھی رہ گئے پیچھے |
الفاظ سے بڑھ کر کوئی نشتر نہیں دیکھا |
کنکر مجھے دکھلا کے وہ کہتا تھا گہر ہے |
اُس شخص نے شاید کبھی گوہر نہیں دیکھا |
معلومات