آنکھوں نے کبھی میری یہ منظر نہیں دیکھا
گرتا ہوا ندی میں سمندر نہیں دیکھا
دی لاکھ صدائیں مُجھے اُس شخص نے لیکن
یک بار بھی میں نے اسے مڑ کر نہیں دیکھا
پل بھر میں وہ قاتل ہے تو پل بھر میں مسیحا
اُس جیسا عجب میں نے ستم گر نہیں دیکھا
ہے شاہ اگر کوئی تو ہے کوئی گداگر
ہر شخص کا اک جیسا مقدر نہیں دیکھا
چندا جو تکا کرتا ہے حسرت سے زمیں کو
اُس نے کبھی دھرتی پہ اتر کر نہیں دیکھا
معلوم کہاں تم کو مرے درد کی شدت
تم نے کبھی افلاس میں جی کر نہیں دیکھا
خنجر ہو کہ تلوار سبھی رہ گئے پیچھے
الفاظ سے بڑھ کر کوئی نشتر نہیں دیکھا
کنکر مجھے دکھلا کے وہ کہتا تھا گہر ہے
اُس شخص نے شاید کبھی گوہر نہیں دیکھا

4
202
بہت عمدہ
کماااااااال

شکریہ

اچھی ہے واہ

Too good ?