آج سارے پیڑوں پر
شام کا بسیرا ہے
گام گام مایوسی
اور گھپ اندھیرا ہے
درد ہے کہ تنہائی
کون یہ بتائے گا
اک ہجومِ یاراں میں
خامشی نے گھیرا ہے
دیکھو چاند جلتا ہے
ہاتھ اپنے مَلتا ہے
بادلوں میں چُھپتا ہے
اور پھر نکلتا ہے
دیکھو رات ڈھلتی ہے
آرزو پگھلتی ہے
دل کے زخم روتے ہیں
ساتھ روح جلتی ہے

131