| بن تیرے کوئی میرا طرف دار نہیں ہے |
| ہمدرد کُجا کوئی بھی غمخوار نہیں ہے |
| کل رات یہ کمرا تری خوشبو سے مہکا |
| اُس وقت سے مَن مائلِ بیدار نہیں ہے |
| جو صبر میں لذت ہے وہ رونے میں کہاں ہے |
| ورنہ مجھے رونے سے بھی انکار نہیں ہے |
| اللہ مرے مولا یہ مہم عشق کی توبہ |
| جاہل ہے جو کہتا ہے یہ دشوار نہیں ہے |
| منزل ہے ابھی دُور کہیں رُکنا نہیں ہے |
| یہ راہ کا پتھر ہے درِ یار نہیں ہے |
| دُکھ درد سنانے کو فسانہ نہیں کہتے |
| اتنا بھی تیرے ظرف کا معیار نہیں ہے |
| بازو پہ سُلاتی ہے شبِ غم مجھے آ کر |
| سچ بولو تو کہتے ہیں سمجھ دار نہیں ہے |
| جس جھیل کنارے پہ چلا کرتے تھے دونوں |
| اُس جھیل نے پوچھا ہے ترا یار نہیں ہے |
| دامن میں سوا تیرے بچا کچھ بھی نہیں ہے |
| اور تُو ہی میرا ہونے کو تیار نہیں ہے |
| تیرے ہی لبِ شیریں سے مسحور تھی بلبل |
| کیوں آج تیرا لہجہ مزیدار نہیں ہے |
| چاہت کے شجر ایسے زمیں بوس ہوئے ہیں |
| گلشن میں پرندوں کی وہ چہکار نہیں ہے |
| تُو نے ہی کُریدے ہیں سبھی زخم ہمارے |
| اوپر سے یہ تہمت کہ تجھے پیار نہیں ہے |
| جس شخص کی خاطر تُو مرَا جاتا ہے یاسر |
| اُس کو ترے مرنے سے سروکار نہیں ہے |
معلومات