تجھ سے مل کر تری بانہوں میں بکھر جانا ہے |
پیار کرنا ہے تمہیں پیار میں مر جانا ہے |
دل یہ ضدی ہے کہاں عقل کی سنتا ہے کبھی |
تو جدھر جائے گا اِس نے بھی اُدھر جانا ہے |
سخت پچھتایا میں ، خوشبو کو مُقیَّد کر کے |
حالانکہ علم بھی تھا اِس نے بکھر جانا ہے |
میں نے مانگی ہے بڑے شوق سے قربت تیری |
تو سمجھتا تھا کے میں نے بھی سُدھر جانا ہے |
ترس کھائیں گے کبھی نام پکاریں گے مرا |
یہ نشہ میرا ، بہت جلد اتر جانا ہے |
میری مٹی میں مہک پیار کی پھیلی ہوئی ہے |
کوزہ گَر نے بھی مجھے، سینہ سپِر جانا ہے |
چاندنی شہر کی گلیوں میں کہیں کھو سی گئی |
پھر یہ جگنو نے کہا ، بول کدھر جانا ہے |
باقی سب شعر سناؤں گا اکیلے میں کبھی |
اب میں چلتا ہوں مجھے لوٹ کے گھر جانا ہے |
کوئی کہہ دے یہ انہیں اور تَوَقُّف نا کریں |
ورنہ' یاسر' نے یونہی راہ پہ مر جانا ہے |
معلومات