منظر سے دور دور تھا آنکھوں کے پاس تھا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب تُو اداس تھا
بستر کی ہر شکن نے گواہی دی چیخ کر
ہر خواب سر تا پاؤں مرا التماس تھا
پُر لطف امتزاج تھا کانٹوں کا پھول میں
جس لمحے ایک شخص مرے آس پاس تھا
برسوں کے رتجگوں کا سحر ٹوٹا جس جگہ
تیری نفیس یادوں کا وہ نرم گھاس تھا
یاروں کی بھیڑ بھاڑ میں الجھا ہوا تھا تُو
جب میں تمہاری چاہ میں محوِ قیاس تھا
کچھ مور ناچتے تھے گلابوں کی بھیڑ میں
یاسر تمہاری یاد میں بیٹھا اُداس تھا

164