اے ہمنشیں مسافر مجھے راستہ دکھانا
چھوڑے زمانہ بے شک تم ہاتھ نا چھڑانا
پہلے ہی سوچ لو تم آئیں گے درد لاکھوں
پھر بیچ راستے میں تنہا نا چھوڑ جانا
تُو ہے چمن کی رونق جب جانے گا زمانہ
تب گائے گی یہ دنیا , درویش کا ترانہ
گُل رنگ خوبصورت سر مست روح پرور
ڈر ہے جو سچ کہوں تو بن جائے نا فسانہ
اُس نے اُکھڑ کہ مجھ سے بولا کہ یار جاؤ
شدت سے یاد آیا وہ پیار کا زمانہ
دیکھو اے چاند تارو تم میرے رازداں ہو
جیسے تڑپ رہا ہوں اُس کو نہیں بتانا
ظلمت کی دھوپ میں جب مجھے چھوڑ دے گی دنیا
تب سائبان بننا , بادل کو ڈھونڈ لانا
اک بار آ تو جاؤ , اتنے بھی کیا خفا ہو
میں ضد نہیں کروں گا تم ہاتھ نہ ملانا
یہ عشق بھی غضب ہے اس میں حضورِ والا
پہلے ہے خوب ہنسنا پھر چپ سے روئے جانا
کچھ دن سے ہوں میں فارغ بس ایک مشغلہ ہے
تصویر تیری تکنا , اور سینے سے لگانا
تیری جو بے رُخی ہے وہ بھی ہے راز گہرا
جو دلبروں نے سمجھا نا عاشقوں نے جانا
آہا تری یہ خصلت ہے آفریں اذیت
نظروں کو چار کرنا پھر آنکھ نا ملانا
یاسر کا دل جلے گا , تب دل نہیں جلانا
آنا لحد پہ بے شک , پر پھول نا چڑھانا

0
129