آنکھیں ہیں نیم خواب نیا سال آ گیا
جیون وہی عذاب نیا سال آ گیا
پنچھی اُداس بیٹھے ہیں یادوں کی شاخ پہ
مُرجھائے ہیں گلاب نیا سال آ گیا
کس نے تمہارے پیار میں کیا کچھ لُٹا دیا
چھوڑو سبھی حساب نیا سال آ گیا
صحرا کی گرم ریت پہ کب تک چلائے گا
دلبر مرا نواب نیا سال آ گیا
اب حالِ دل سنائیں تو کس کو سنائیں ہم
پُر درد ہے شباب نیا سال آ گیا
دو نین تیری دید کے فاقوں سے مر گئے
لوٹ آئیے جناب نیا سال آ گیا
دامانِ یار تھام امیدِ کو نا چھوڑ
اُٹھیں گے اب حجاب نیا سال آ گیا
اے شورشِ حیات ذراسانس لینے دے
لکھنی ہے اک کتاب نیا سال آ گیا
یاسر کو کنتی آس ہے تیرے جواب کی
دے کوئی تو جواب نیا سال آ گیا

0
109