تیری یاد کی خوشبو چار سو بکھرتی ہے
دل کی سر زمینوں پہ چاندنی اُترتی ہے
درد میں اضافہ کر غم کشید کرنا ہے
درد کے دھندلکوں میں شاعری نکھرتی ہے
آپ جیسے شاہوں کو کچھ خبر نہیں اسکی
کیسے ہم فقیروں کی زندگی گزرتی ہے
تُو اداس ہو تو پھر حَبس بڑھنے لگتا ہے
اور مسکرائے تو ، روشنی بکھرتی ہے
موہنی سی مورت ہے خاص کام کرتی ہے
ماہرو ہے نام اسکا اور مجھ پہ مرتی ہے
شامِ غم سے یارانہ اب بھی اپنا قائم ہے
بس ذرا خفا سی ہے ورنہ پیار کرتی ہے
میرے دل میں بستے ہیں سارے غم زمانے کے
اس طرح کے جنگل میں کب خوشی ٹھہرتی ہے
ریت جیسے یاسر کو تُو ملا ہواوں سا
تجھ کو دیکھ لینے سے سانس رقص کرتی ہے

153