| تیری یاد کی خوشبو چار سو بکھرتی ہے |
| دل کی سر زمینوں پہ چاندنی اُترتی ہے |
| درد میں اضافہ کر غم کشید کرنا ہے |
| درد کے دھندلکوں میں شاعری نکھرتی ہے |
| آپ جیسے شاہوں کو کچھ خبر نہیں اسکی |
| کیسے ہم فقیروں کی زندگی گزرتی ہے |
| تُو اداس ہو تو پھر حَبس بڑھنے لگتا ہے |
| اور مسکرائے تو ، روشنی بکھرتی ہے |
| موہنی سی مورت ہے خاص کام کرتی ہے |
| ماہرو ہے نام اسکا اور مجھ پہ مرتی ہے |
| شامِ غم سے یارانہ اب بھی اپنا قائم ہے |
| بس ذرا خفا سی ہے ورنہ پیار کرتی ہے |
| میرے دل میں بستے ہیں سارے غم زمانے کے |
| اس طرح کے جنگل میں کب خوشی ٹھہرتی ہے |
| ریت جیسے یاسر کو تُو ملا ہواوں سا |
| تجھ کو دیکھ لینے سے سانس رقص کرتی ہے |
معلومات