| میں تجھ کو یاد نہ کرتا تو اور کیا کرتا |
| میں تیری بات نہ کرتا تو اور کیا کرتا |
| سوائے عشق مجھے اور کچھ نہیں معلوم |
| میں چاہتوں سے مُکرتا تو اور کیا کرتا |
| وگرنہ دور اُڑا چلتی آندھیاں تجھ سے |
| میں اپنے پَر نہ کُترتا تو اور کیا کرتا |
| یہ عکسِ ذات کا باطن مجھے دکھانے لگے |
| میں آئنوں سے نہ ڈرتا تو اور کیا کرتا |
| جلا رہی تھی بدن آبلوں کی شوخ جلن |
| میں سسکیاں جو نہ بھرتا تو اور کیا کرتا |
| نگاہِ شوق سے دیکھا تھا اُس نے میری طرف |
| میں اب خوشی سے نہ مرتا تو اور کیا کرتا |
| بجھی تھی درد کی شمع بڑا اندھیرا تھا |
| نہ اب بھی چاند اُبھرتا تو اور کیا کرتا |
| غزل سُنی ہی نہیں اور چل دیے اُٹھ کر |
| میں ٹوٹ کے نہ بکھرتا تو اور کیا کرتا |
| ترے وصال میں جیتا تو بے وفا ہوتا |
| میں اب بھی کُوچ نہ کرتا تو اور کیا کرتا |
| ہمارا پیار کہانی ہے کوئی روحوں کی |
| میں اُس کے کان نہ بھرتا تو اور کیا کرتا |
| تمہارے جیسا ملا قسمتوں سے یاسر کو |
| میں تجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا |
معلومات