کل شبِ ہجر سے , اک ملاقات تھی
چاند جلتا رہا , چاندنی رات تھی
دشت ویران تھا , صبر حیران تھا
زخم روتے رہے , غم کی بارات تھی
سب ستارے رہے , ساتھ نوحہ کناں
آسماں زرد تھا , جانے کیا بات تھی
اک نگاہِ کرم , پھر ہوئی ہم قدم
سب سنورنے لگا , یہ کرامات تھی
بھید کُھلنے لگے , زخم سِلنے لگے
رقصِ بسمل ہوا , ساتھ برسات تھی
دل سنبھلنے لگا , رُت بدلنے لگی
تیرے آنے تلک , رات ہی رات تھی
میں بکھرتا گیا , فن نکھرتا گیا
اُس دریچے سے پائی یہ سوغات تھی
خواب میں وہ ملے ہم نے کیے گلے
خوب سے خوب تر یہ ملاقات تھی
اسطرح سے محبت میں 'یاسر' جیا
عشق مذہب رہا , عاشقی ذات تھی

0
127