عجب سماں تھا غضب گھڑی تھا
میں تیری بستی سے جا رہا تھا
اداس یادوں کے کارواں تھے
جو سنگ میرے رواں دواں تھے
قدم قدم لڑکھڑا رہا تھا
میں تیری بستی سے جا رہا تھا
شفق کی رنگت اداس تر تھی
امیدِ نِو روز بے ثمر تھی
عجیب کہرہ سا چھا رہا تھا
میں تیری بستی سے جا رہا تھا
ہوا بھی تھم تھم کہ چل رہی تھی
پرندے وطنوں کو جارہے تھا
قمر بھی پلکیں اُٹھا رہا تھا
میں تیری بستی سے جا رہا تھا
تمہیں پکارا تھا بے ارادہ
چبھن ہوئی تھی بہت زیادہ
یہ دل فسانے سنا رہا تھا
میں تیری بستی سے جا رہا تھا
شجر بھی پتے گرا رہے تھے
افق پے بادل بھی چھا رہے تھے
اندھیرا مجھ کو بلا رہا تھا
میں تیری بستی سے جا رہا تھا
ابھی تو جوبن ہے تیرا یاسر
ابھی بہاروں کے دن پڑے ہیں
یہی میں خود کو بتا رہا تھا
میں تیری بستی سے جا رہا تھا

0
116