پورا کوئی بھی ہم سے ہَدَف ہو نہیں رہا
دل سے ترا خیال تَلَف ہو نہیں رہا
صد حیف! آسمان میں لاکھوں ستارے ہیں
لیکن کوئی بھی میری طَرَف ہو نہیں رہا
میں چاہتا ہوں ساتھ اِسے منسلک کروں
اور دل ترے خطوط سے لَف ہو نہیں رہا
مرنے کا ایک تل پہ مزہ ہم سے پوچھ لیں
جن سے یہ اختیار، شَغَف ہو نہیں رہا
شاید کہ کچھ چھپا ہے مری آستین میں
میں بند کر رہا ہوں پہ کَف ہو نہیں رہا
وہ جان لے کہ حبِ علی میں نجات ہے (رضی اللہ عنہ)
جس کا بھی دھیان سوئے نَجَف ہو نہیں رہا

86