کانٹوں کو تلف آگ بجھانے پہ لگے ہیں
یہ گھاؤ ترے شہر میں آنے پہ لگے ہیں
کچھ تیر لگے ہیں ہمیں احباب کے ہاتھوں
کچھ تیر ترے خواب سجانے پہ لگے ہیں
ہیں اور جو اطراف مرے رقص کناں ہیں
مرہم جنہیں رکھنا ہے ستانے پہ لگے ہیں
میرے بھی مقدر میں یہی زخم لکھا تھا
تیرے بھی یہی تیر نشانے پہ لگے ہیں
اک چہرہ اتر جائے تو پھر سوچتا ہوں میں
کیا ڈر ہیں جو رنگت کو اڑانے پہ لگے ہیں

74