کانٹوں کو تلف آگ بجھانے پہ لگے ہیں |
یہ گھاؤ ترے شہر میں آنے پہ لگے ہیں |
کچھ تیر لگے ہیں ہمیں احباب کے ہاتھوں |
کچھ تیر ترے خواب سجانے پہ لگے ہیں |
ہیں اور جو اطراف مرے رقص کناں ہیں |
مرہم جنہیں رکھنا ہے ستانے پہ لگے ہیں |
میرے بھی مقدر میں یہی زخم لکھا تھا |
تیرے بھی یہی تیر نشانے پہ لگے ہیں |
اک چہرہ اتر جائے تو پھر سوچتا ہوں میں |
کیا ڈر ہیں جو رنگت کو اڑانے پہ لگے ہیں |
معلومات