گزری ہے ایک عمر مری دل فگاری میں
تیکھے کماندار ہیں اس راہداری میں
مشکل ہے ایک آدھ ستارے کا فرق ہو
اتنے غلط نہیں ہیں ہم انجم شماری میں
ٹھہرائے پھر رہو ہو میاں گھر میں ایک دشت
اور چاہتے ہو پھول ہوں کھڑکی تمہاری میں
بس ختم ہو چلا ہے یہ اجلاس وصل کا
ملنے لگا ہے ہجر ہمیں یادگاری میں
مدہوش رکھ مجھے کہ میں تیرا مریض ہوں
کوئی کسر نہ رکھ مری تیمارداری میں
اُڑنے لگے ہیں آپ تو یہ ذہن میں رہے
اس خاک کا بھلا ہے فقط خاکساری میں

0
126