| یوں ڈر کے بگولوں سے تو ہجرت نہیں ہوتی |
| یہ دل ہے اسے دشت سے وحشت نہیں ہوتی |
| مل جائے اداسی تو یہ پوچھوں گا بٹھا کر |
| وہ کیوں مرے کاشانے سے رخصت نہیں ہوتی |
| خود آنکھ کو لے جانا پڑے گا ہمیں اک دن |
| اُن سے تو یہاں آنے کی زحمت نہیں ہوتی |
| اے دیس میں تجھ پھول کی عترت کا امیں ہوں |
| مجھ سے کسی بندوق کی بیعت نہیں ہوتی |
| کچھ کام نہ کر پایا کہ یکجا نہ تھیں دونوں |
| ہمت جو اگر ہوتی تو نیت نہیں ہوتی |
| یہ وقت ہے اور وقت پہ آتا ہے کسی پر |
| اس شاہ کے ہرکاروں سے غفلت نہیں ہوتی |
معلومات