یوں ڈر کے بگولوں سے تو ہجرت نہیں ہوتی
یہ دل ہے اسے دشت سے وحشت نہیں ہوتی
مل جائے اداسی تو یہ پوچھوں گا بٹھا کر
وہ کیوں مرے کاشانے سے رخصت نہیں ہوتی
خود آنکھ کو لے جانا پڑے گا ہمیں اک دن
اُن سے تو یہاں آنے کی زحمت نہیں ہوتی
اے دیس میں تجھ پھول کی عترت کا امیں ہوں
مجھ سے کسی بندوق کی بیعت نہیں ہوتی
کچھ کام نہ کر پایا کہ یکجا نہ تھیں دونوں
ہمت جو اگر ہوتی تو نیت نہیں ہوتی
یہ وقت ہے اور وقت پہ آتا ہے کسی پر
اس شاہ کے ہرکاروں سے غفلت نہیں ہوتی

2
191
وااااہ شاندار

شکریہ سر

0