Circle Image

Zeshan khan khaki

@danish

حضور آپ کے در کا ہی صدقہ ملتا ہے
حضور آپ سے گھر بار میرا چلتا ہے
حضور ذکر ہے یہ آپ کا سکون جاں
حضور اس سے ہی دل کو سکون ملتا ہے ۔
حضور آپ سے روشن جہان ہے سارا
حضور آپ سے تاریک دل چمکتا ہے

0
19
کمی اب روز و شب یہ کھل رہی ہے
نہ جانے کیوں سزا یہ مل رہی ہے
کبھی تو وقت تھا پیہم عنایت
یہاں اب حال ہے شب ڈھل رہی ہے
نگاہوں نے کیا زیر و زبر دل
لگائی آگ جو وہ جل رہی ہے

16
دین کے پہلے مجاہد ہوئے اصحاب بدر
بعد والوں کے یوں قائد ہوئے اصحاب بدر
اہلے توحید بھلا کون ہوا ان جیسا
شان میں اپنی ہی واحد ہوئے اصحاب بدر
کفر کے بیٹوں کو لمحوں میں اجاڑا ایسے
زلزلہ بن کے ہیں وارد ہوئے اصحاب بدر

14
غوثِ اعظم سنو عرض میری سنو
ہو پریشاں مدد ۔ عرض میری سنو
تم لگاتے ہو ڈوبوں کی نییا کنار
مجھ کو بھی دو مدد عرض میری سنو
مرتبہ آپ کا سلسلہ آپ کا
جاری ہو تا ابد عرض میری سنو

0
180
تضمین کلام اعلیحضرت
حضور سیدی سندی آقائی مرشدی
غوث الاعظم رضی اللہ عنہ
از قلم سگ راہ مدینہ
خواجہ محمد ذیشان خان اختر القادری چشتی نظامی قلندری
شان اونچی ہے تری سلسلہ اعلی تیرا

1221
دوا ہی دوا ہے مدینے کا پانی
شفا ہی شفا ہے مدینے کا پانی
مدینے میں رہتے جو خوش بخت ان کا
مقدر بنا ہے مدینے کا پانی
مدینے کی آب و ہوا عشق والی
وفا ہی وفا ہے مدینے کا پانی

57
ان کی الفت کے قدر داں تھے ہم
خوب ہی ان پہ مہرباں تھے ہم
وقت کی گردشوں نے جکڑا تھا
وہ یہ سمجھے کہ بد گماں تھے ہم
کہہ لیا ۔سن لیا ۔خموش رہے
تم نے سمجھا کہ بے زباں تھے ہم

100
دل میں میرے سجے محمد ہیں
فکر میں بھی بسے محمد ہیں
شبِ اسری خدا سے ملنے کو
لامکاں کو چلے محمد ہیں
کیوں نہ نازاں ہوں اپنی قسمت پر
فضلِ رب ہے ملے محمد ہیں

76
مرحبا آمد ہوئی ہے احمدِ مختار کی
نعمتِ کبری ولادت ہے شہِ ابرار کی
اے مرے مولا ثنائے مصطفی کے باب میں
نعت مجھ کو بھی عطا ہو مخزنِ اسرار کی
شادمانی کا سما ہے وجد میں ہے کائنات
دہر میں آمد ہوئی ہے نبیوں کے سالار کی

68
مرحبا آمد ہوئی ہے احمدِ مختار کی
نعمتِ کبری ولادت ہے شہِ ابرار کی
اے مرے مولا ثنائے مصطفی کے باب میں
نعت مجھ کو بھی عطا ہو مخزنِ اسرار کی
شادمانی کا سما ہے وجد میں ہے کائنات
دہر میں آمد ہوئی ہے نبیوں کے سالار کی

112
مدتوں بعد میں نے دیکھا قمر شام کے بعد
دیکھ کے اس کو رہی تکتی نظر شام کے بعد
ایسے ناکام تمنا کبھی پہلے تو نہ تھے
اس کی یادوں نے کیا ہے یہ اثر شام کے بعد
کہا اس نے تھا مجھے صبح کو مل بیٹھے گے
ہوسکی پھر نہ کبھی اسکی سحر شام کے بعد

72
اک کہانی زندگی
تھی سہانی زندگی
وقت کی رفتار تھی
اور نمانی زندگی
پہلے کا وہ دور تھا
تھی دوانی زندگی

65
عشق میں در در پھرائے زندگی
بندے کو جوگی بنائے زندگی
وقت کا احساس اس کو کب رہا
جس کو دیوانہ بنائے زندگی
دیکھا ہم نے بار ہا یہ ماجرا
آدمی کو ہے رلائے زندگی

115
تیرے احسان و عطائیں اے خدا یاد نہیں
حبِ دنیا میں ہوئے گم کہ رضا یاد نہیں
کھو چکے شرم وحیا غیروں کی تقلید میں ہم
ہوئےہیں نفس کے قیدی کہ بھلا یاد نہیں
ہمیں معلوم ہے کے تیری عبادت لازم
ہائے غفلت کہ کوئی سجدہ ترا یاد نہیں

54
آپ کی یادوں سے دل میں پیدا ہے خود رفتگی
کانوں میں رس گھولتی ہے یادوں کی یہ نغمگی
نام پاکِ مصطفی کی عظمت و تاثیر ہے
قلب بھی روشن ہوا ہے فکر میں پاکیزگی
کیوں نہ جگمگ ہو مرا گھر بار میرے گھر میں ہیں
موئے اطہر جان رحمت جو ہیں میری زندگی

104
بے فیض ہی رہ جاتے سرکار کدھر جاتے
ٹھوکر جہاں میں کھاتے سرکا ر کدھر جاتے
احسان ہے یہ رب کا کلمہ تیرا پڑھا ہے
حاشا یوں ہی رہ جاتے سرکار کدھر جاتے
رحمت ہو کل جہاں کی نعمت ہو کبریا کی
گر آپ کو نا پاتے سرکار کدھر جاتے

104
کس کی عظمت ہے شہا آپ کی عظمت کی طرح
کس کی رفعت ہے شہا آپ کی رفعت کی طرح
چاند تارے ہو یا سورج تری ضو سے روشن
ان کی طلعت ہو کیوں پھر آپ کی طلعت کی طرح
انبیاء جتنے بھی آئے ہیں سبھی کے لب پر
تیرے آنے کا ہی تھا چرچا بشارت کی طرح

64
کلام بحضور ولی کامل صوفی باصفا فنا فی اللہ آفتاب ولایت حضور سیدی سندی آقائی مرشدی حضرت حافظ سید وارث علی شاہ علیہ الرحمۃ الرضوان
رنگ دو اپنے ہی رنگ میں وارث
رنگ ہے تیرے سنگ میں وارث
رنگ کے تیرے میں متوالا
بھردو انگ میں انگ میں وارث
میلا ہوا ہو ں مورے پیا میں

1
109
تو ہے رب کا ولی حاجی وارث علی
شان تیری بڑی حاجی وارث علی
دیوہ تیری زمیں تیرے زیرِ نگیں
تیری دھو میں مچی حاجی وارث على
آل مولی علی جان سبطین ہو
سیدی مرشدی حاجی وارث على

135
مرے آقا ہو محبوبِ خدا آخر نبی تم ہو
مرے آقا نویدِ انبیاء آخر نبی تم ہو
ہے فرمانِ خدا نبیوں کے مولا تم ہی خاتم ہو
نہ کوئی بعد تیرے آئیگا آخر نبی تم ہو
جہاں بھر میں عقیدہ ہے مسلم تو یہی بس ہے
نبوت ختم ہے تم پر شہا آخر نبی تم ہو

111
آج بھی ان کے پرستار ہیں ہم
ان کی الفت میں گرفتار ہیں ہم
وہ بھلے مجھ سے جفا کرتے رہیں
عشق میں صاحبِ کردار ہیں ہم
نکلے ہو بیچنے پندار حسن
بیچ دو ہم کو خریدار ہیں ہم

85
مری فکر یوں ان کے در پر چلی ہے
تصور میں روضے کی جالی ڈھلی ہے
رہوں مست بس یاد میں تیری آقا
ہر اک فکر سے فکر بس یہ بھلی ہے
ہے نامِ محمد میں تاثیر ایسی
لیا نام ہر ایک مشکل ٹلی ہے

113
انسان ہوں میں شمع کا پروانہ نہیں ہوں
چھیڑو نہ مجھے میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں
بیٹھا ہوں پیا یاد میں تم سمجھے بھلا کیا
ہیں ان سے مراسم کوئی انجانا نہیں ہوں
ظاہر پہ نہ تو حکم دے اس حال پہ میرے
میں عشق سے آباد ہوں ویرانہ نہیں ہوں

112
میلا کہا تھا اس کونہانے کے بعد بھی
رونے لگا وہ باتیں سنانے کے بعد بھی
چائے پکوڑے رول اڑانے کے بعد بھی
وہ روٹھتا رہا ہے منانے کے بعد بھی
چہرہ ہے ہونق سا لگے بے وقوف سا
دھوکا ہے کھایا اس کے بدلنے کے بعد بھی

74
ان کی رحمت سحاب کی سی ہے
اور سیرت نا یاب کی سی ہے
یا رسولِ خدا مدد ہو مری
حالت اب اضطراب کی سی ہے
دل کو کر دیجئے شہا بلبل
اس کی حالت غراب کی سی ہے

140
درِ مصطفے پر جو آ یا گیا ہے
وہ خوش بخت کیا ہی نبھایا گیا ہے
گئے ہیں وہی ان کے دربار عالی
جنہیں خود وہاں سے بلایا گیا ہے
خدا نے کہا جن کو محبوب ان کو
سرِ عرش مہماں بنایا گیا ہے

146
نگاہِ لطف کردیں میری ہستی گلستاں کرکے
مرے دل کو بدل دیں اس کو اپنا آستاں کرکے
جہاں جاؤں جدھر دیکھوں وہا ں جلوے تمھارے ہوں
مرے سرور کرم کر دیں مجھے یوں شادماں کرکے
حضوری ہو مرے آقا مری قسمت چمک اٹھے
منور کر دیں خلوت بھی زرا جلوہ عیاں کر کے

86
کرنا اب کیا ہے بتا عشق میں خواہش کرکے
اپنے جذبات کی اس درجہ نمائش کرکے
تہمتیں خود ہی لگا کر ہے ستایا مجھ کو
اور اب رعب جماتا ہے یہ سازش کرکے
جب کبھی بات ہے کی تو نے وفا کی ساجن
تو سراہا ہے تجھے تیری ستائش کر کے

216
وہ سمجھتے ہیں کیا جفا کرکے
ٹوٹ جائیں گے ہم وفا کرکے
بھو ل ہے ان کی بھول پائیں گے
مجھ کو یوں غم سے آشنا کرکے
خوش رہوں گے وہاں پہ تم کیسے
یاں پہ طوفان غم بپا کرکے

134
تھکا میں نہیں ہو ں تھکایا گیا ہے
یوں ہی بے وجہ آز مایا گیا ہے
محبت ہی کی تھی غلط کیا ہے اس میں
کوں دل کو ہمارے جلایا گیا ہے
اے منصف بتا دے تو اب یہ حقیقت
میں ہارا نہیں ہوں ہرایا گیا ہے

97
مرے نصیب میں ایسا قیام ہو جائے
درِ رسول پہ ہستی کی شام ہو جائے
سجائے بیٹھا ہوں دل کو اس لئے مولا
نگاہِ ناز کا دل پر خرام ہو جائے
جدھر نظر ہو ادھر جلوے آپ کے دیکھوں
دل و نگاہ میں یہ اہتمام ہو جائے

140
ان کی یادوں سے دل نگینہ ہے سن
بخت روشن ہے خوب جینا ہے سن
یادِ مرشد سے یاد ملتی ہے
یاد مرشد کی ان کا زینہ ہے سن
بے خبر وہ نہیں خبر ہے انہیں
دل تو حسرت کا اک دفینہ ہے سن

112
کاش میں بھی دیکھ لوں وہ جلوۂ روۓ حسین
اور سما لوں جسم و جاں میں خوشبوۓ روۓ حسین
خوب سیرت خوب صورت خلق میں تھے بے مثال
اور عدو کے واسطے بھی نرم تھی خوئے حسین
بابا تیرے مولا حیدر مصطفے نانا ترے
سیدہ ہیں والدہ شببر ہیں ماں جاۓ حسین

4
147
نہیں تھا کام ان سے کچھ وفا کا
کیا ہے کام جب بھی تو جفا کا
مصیبت میں ہمیشہ چھوڑ جانا
رہا ہے کام ان کا تو دغا کا
نگاہیں پھیر کے او جانے والے
ہے تم کو پاس کچھ شرم و حیا کا

70
کیا گلستاں آل احمد نے لگایا ریت پر
پھول جیسے جسموں کو خود ہی سجایا ریت پر
کارواں پہنچا جو کربل سامنے لشکر کھڑا
حکم پر سید کے پھر خیمہ لگایا ریت پر
جبر کا اک سلسلہ تھا آلِ احمد پر روا
ظالموں نے بے خطاؤں کو ستایا ریت پر

80
ہر بات سے عیاں ہے صداقت حسین کی
گر دیکھنا ہے دیکھو لیاقت حسین کی
کہتے ہیں جو یزید کی غلطی نہیں کوئی
مہنگی پڑے گی تم کو عداوت حسین کی
گستاخ نا ہجار وہ بیکار شخص تھا
اعلی تھی حق پرست تھی بیعت حسین کی

126
دونوں جہاں میں خوب ہے عزت حسین کی
دنیا بھی ہے حسین کی جنت حسین کی
پیارے نبی کے لاڈلے پسرے علی ہیں یہ
اور والدہ ہیں خاتونِ جنت حسین کی
تاجِ صحابیت سے مزین بھی آپ ہیں
آلِ نبی ہیں یوں بھی ہے نسبت حسین کی

77
دونوں جہاں میں خوب ہے عزت حسین کی
دنیا بھی ہے حسین کی جنت حسین کی
پیارے نبی کے لاڈلے پسرے علی ہیں یہ
اور والدہ ہیں خاتونِ جنت حسین کی
تاجِ صحابییت سے مزین بھی آپ ہیں
آلِ نبی ہیں یوں بھی ہے نسبت حسین کی

119
حسین ابن حیدر ولا چاہتا ہوں
ولا ئے خدا اور رضا چاہتا ہوں
ملے کربلا میں بتانے کو کچھ جا
شہا تیرے در کی فضا چاہتا ہوں
وفا دین کی اور پیارے نبی کی
میں تم سے شہا یہ عطا چاہتا ہوں

73
نہیں پوچھ مجھ سے کہ کیا چاہتا ہوں
میں چپ ہوں کہ پردہ ترا چاہتا ہوں
فسانے سنانے کو یوں تو بہت ہے
مگر اس سے میں کچھ سوا چاہتا ہوں
چلو آؤ کھیلیں محبت محبت
محبت ہے کیا دیکھنا چاہتا ہوں

108
کیسا وہ سخت دل رہا آنے کے بعد بھی
ہے دور دور وہ رہا پانے کے بعد بھی
کیسے کہیں یہ اس سے بھلانے کے بعد بھی
دل میں رہا وہ چھوڑ کے جانے کے بعد بھی
رسمِ وفا نبھاتے رہے گاہے گاہے ہم
اسکے ہزار حیلے بہانے کے بعد بھی

62
غمِ حسین میں رونا بڑی عبادت ہے
دلوں میں یاد کا رہنا بڑی سعادت ہے
ہمارے قلب میں دنیا میں اور جنت میں
حسین ابن علی آپ کی سیادت ہے
چلے ہیں کربلا نوری گھرانے والے سب
امام وقت کے ہاتھو ں میں ہی قیادت ہے

210
تمہیں دل سے میں باخدا چاہتا ہوں
یہ اقرا ر تم سے پیا چاہتا ہوں
ملے مستقر مجھ کو بھی تیرے دل میں
تجھی سے تجھی کو سدا چاہتا ہوں
وفاؤں کا اپنی صلہ چاہتا ہوں
سوا اس کے میں اور کیا چاہتا ہوں

81
ہے کس قدر عظیم قرابت حسین کی
ہے سیدہ کے گھر میں ولادت حسین کی
جبریل لے کے آئیں ہیں مولا تمھارا نام
"شبیر"یوں بھی اعلی ہے عظمت حسین کی
دلکش نقوش چہرہ ملاحت ہے نور نور
کیوں کے ہے مصطفی سے شباہت حسین کی

78
آج بھی ڈوبی فضا ہے تیرے غم میں یا حسین
اشک کا سیلِ رواں ہے تیرے غم میں یا حسین
بیتی جو تم پر اے پیارے کون ہے جو سہہ سکے
کہر سا ہر جا بپا ہے تیرے غم میں یا حسین
لاشے اپنوں کے اٹھا کر بھی نہ لب سے آہ کی
آسماں بھی رو پڑا ہے تیرے غم میں یا حسین

112
نیک سیرت زرا بنا خود کو
عادت بد سے بھی بچا خود کو
آدمی خصلتوں سے بنتا ہے
اپنے اوصاف خود سنا خود کو
چاہئے ذات کا اگر عرفاں
عشق میں رب کے تو جلا خود کو

78
آئینہ یار کا بنا خود کو
عشق میں ان کے تو مٹا خود کو
بے کلی پل میں ختم ہو تیری
ان کی یادوں میں تو گما خود کو
بے بسی عشق میں نہیں ہوتی
یہ سبق عشق کا پڑھا خود کو

76
غفلتوں سے زرا جگا خود کو
نیک اب راہ تو چلا خود کو
مشکلیں پل میں ہوگیں آساں سب
راستے رب کے اب تو لا خود کو
شکوہ کرنا نہ اب شکایت تو
مرضئ رب پہ ڈھالے جا خود کو

77
قید سے اپنی تو چھڑا خود کو
کیا ہے تو کچھ نہیں بتا خود کو
جان و دل ہوش سب روانہ کر
ان کا دیوانہ تو بنا خود کو
بے خودی ہی وہاں کا رستہ ہے
بحر الفت میں تو ترا خود کو

78
مضطرب دل مرا ہو اٹھا ہے یادِ مولا حسین آگئی ہے
غم سے سے سینہ میرا جل اٹھا ہے یادِ مولا حسین آگئی ہے
ہے تصور میں میرے وہ منظر قافلہ ہے چلا سوئے کربل
فکر میں ایک طوفاں بپا ہے یادِ مولا حسین آگئی ہے
پہنچے کر بل جو آلِ پیمبر راہ میں تھا لعینوں کا لشکر
گھیر کر صف با صف ہو گیا ہے یادِ مولا حسین آگئی ہے

1
144
نیک سیرت زرا بنا خود کو
عادتِ بد سے بھی بچا خود کو
آدمی خصلتوں سے بنتا ہے
اپنے اوصاف خود سنا خود کو
چاہئے ذات کا اگر عرفاں
عشق میں رب کے تو جلا خود کو

94
آئیے نغمے میں مل کے گاتے ہیں
جشن کی سب خوشی مناتے ہیں
نفرتوں میں ہے کیا رکھا صاحب
دیپ الفت کے اب جلاتے ہیں
اپنے اسلاف کی نشانی کو
ارض امن و اماں بناتے ہیں

90
ڈوبی کشتی کو یہ تراتے ہیں
اور مردوں کو بھی جلاتے ہیں
دل پہ کرتے ہیں راج لوگوں کے
خوب یہ قلب جگمگاتے ہیں
غوث اعظم مدد کریں میری
رنج و غم اب بہت ستاتے ہیں

80
خاص مہمان بن کے جاتے ہیں
جن کو پیارے نبی بلاتے ہیں
دل کو وہ گلستان بناتے ہیں
یاد سرور سے جو سجاتے ہیں
کتنی تاثیر ہے مدینے میں
دل وہیں سب کے کھینچے جاتے ہیں

223
بے سبب خود کو کیوں تھکاتے ہیں
ہم تو کہتے ہیں ٹہر جاتے ہیں
جو بنے عشق کے ہیں دعویدار
دشت میں زندگی گنواتے ہیں
عشق کرنا سزا ہو جاتا ہے
روکنا اس لئے تو چاہتے ہیں

125
جو سخا جود کی لطافت ہے
علی وہ پیکرِ سخاوت ہے
علی تسکین ہے مرے دل کی
علی کا نام ہی حلاوت ہے
علی ہی دفترِ ولایت ہے
علی ہی صاحبِ عنایت ہے

2
242
ہے یہ دل الجھا الجھا سا
ہے فکریں بکھری بکھری سی
رکھا ہےبوجھ بھاری سا
مرے ناقص سے کاندھوں پر
بہت کمزور ہوں مرشد
کہاں ایسی سکت مجھ میں

1
114
وہی بس دوست دل کو بھاتے ہیں
بے غرض یاری جو نبھاتے ہیں
نفسا نفسی میں باوفا جورہے
دل میں تو بس وہی رہ جاتے ہیں
لوگ کیا کیا فریب دیتے ہیں
لوگ کیا کیا فریب کھاتے ہیں

139
ارضِ طیبہ کی شان و عظمت ہے
اس میں پیارے نبی کی تربت ہے
رحمتیں خاص رب کی رہتی ہیں
زرہ زرہ میں یاں کے برکت ہے
نوری ستر ہزار صبح وشام
آتے ہیں کام ان کا مدحت ہے

167
کیا ہی پیاری تری خطابت ہے
ساریہ کی بھی کیا سماعت ہے
اپنے منبر سے رند میں دیکھا
خوب حاصل انہیں فراست ہے
دین کو تم سے ملی ہے نصرت
ایسی اعلی تری شجاعت ہے

200
خصلتیں نیک ہوں سعادت ہے
اس میں ایمان کی حفاظت ہے
پیارے آقا کی پیاری سنت ہے
مسکرانا بھی اک عبادت ہے
جس کو حاصل ہے آپ کی الفت
قلب اس کا ہی باغ جنت ہے

83
نگا میں آپ سا کوئی نہیں ہے
تمھارا دوسرا کوئی نہیں ہے
ہمارے گرد سب اہلِ جفا ہیں
بجز اہلِ وفا کوئی نہیں ہے
ملا ہے گر دغا قسمت ہے میری
نہیں تیری خطا کوئی نہیں ہے

106
چراغ گل بھی ہوا روشنی رہی پھر بھی
نقا ب رخ پہ رہا چاندنی رہی پھر بھی
نگاہ شوخ تھی پر سادگی رہی پھر بھی
ملے ہیں اس سے مگر اک کمی رہی پھر بھی
فراق ختم ہوا تشنگی رہی پھر بھی
جمال یار کی تعریف میں کا بولوں میں

89
تمھاری یاد میں اے کاش میری بیتے زندگی
کرم ہو جائے مجھ پہ بھی کے اب یہ نکھرے ذندگی
بکھرنے اور جڑنے میں پیا ڈھے سا گیا ہوں میں
دعا دے دیجئے کے یوں نہ اب ڈرائے زندگی
بھرو دا من مرادوں سے کہ دل بھی شاد ہو مرا
بہارِ جاں فزا ہو کے مری یہ گزرے زندگی

88
عشق نے بدلی ہماری زندگی
گزرے اب تو یوں ہی ساری زندگی
پیار جب سے آپ کا ہم کو ملا
لگتی ہے اب ہم کو پیاری زندگی
جب ملے تم سے تو یہ جانا پیا
پہلے تھی کتنی نمانی زندگی

114
قصیدہ لکھنے بیٹھا ہوں میں اصحابِ محبت کا
علا مہ رضوی کا اور شاہ تراب الحق کی عظمت کا
نبی کے عشق میں چمکے ہوئے پر نور تھے دونوں
ہمیشہ پڑھتے تھے دونوں قصیدہ شا کی الفت کا
وہ تھے کردار کے غازی جواں افکار ان کے تھے
بھرا تھا دونوں میں اخلاص واللہ علم و حکمت کا

172
نازاں ہو میں اپنی قسمت پر ایمان سے روشن فر مایا
اے خالق كل اے ربِ کریم تو ہی تو ہے مالک ارض و سماں
ہو سنگ و ہجر یا خشک و تر تو نے تو ہی پیدا فر مایا
معبود توی مسجود تو ہی ہے سب کا پالن ہار تو ہی
دے اپنی ولا میرے مولا دامن ہے میں نے پھیلایا
میں گندا نکما اور کمیں ہے اعلی ارفع ذات تری

102
مژدہِ جاںَ فزاں سنا دیتے
جان غم سے مری چھڑا دیتے
ازنِ بطحہ سے آتی جان میں جاں
کہ وہاں جام اک پلا دیتے
کتنی پیاری ہے جاں فزاں کیاری
کاش سجدے وہیں ادا ہوتے

72
ان کی الفت میں مبتلا ہوتے
قیس ہوتے نا جانے کیا ہوتے
کھو کے اپنا سکون ہم بھی پھر
کار بے کار میں سدا ہوتے
ہوتا جو پاس اپنے سرمایہ
ہم بھی پھر صاحبِ عبا ہوتے

105
تیری رحمت نے بلایا میں چلا آیا ہوں
جرمِ عصیاں پہ لجایا میں چلا آیا ہوں
ہوں گنا گار گناہوں پہ ہوں شرمندہ میں
مجھ کو تو بخش خدایا میں چلا آیا ہوں
میرے مسجود یہ سجدہ ہے تیرے در کی عطا
تو نے در پر ہے بلایا میں چلا آیا ہوں

156
انگلی دانت تلے داب کر چیں با چیں
بولے ایسے حقیقت میں ہوں مہ جبیں
بول دو بول کے وہ ہوئے شرمگیں
آنکھیں جیسے کہ ہوں سر مگیں سر مگیں
ان کی ہمت کو کہتے ہیں ہم آفریں
بولے ہم کو سمجھ لیجئے نازنیں

92
خطاوار ہوں میں سیا کار ہوں میں
گناہوں کا مولا سزاوار ہوں میں
گناہوں میں برتر ہوں نیکی میں کمتر
نہیں کوئی مجھ سا وہ بدکار ہوں میں
مجھے بخش دے تو ہے تیری عنایت
وگرنہ عذابوں کا حقدار ہوں میں

144
على مشکل کشا حاجت روا مولا علی حیدر
علی شیرِ خدا شاہِ زماں مولا علی حیدر
بسی ہو ان کی الفت دل میں ہر مومن پہ ہے لازم
علی ایمانِ جاں تسکینِ جاں مولا علی حیدر
عدو کے واسطے کافی ہے واللہ نعرہِ حیدر
علی وہ ہیں قوی فاتح زماں مولا علی حیدر

719
حیا کے پیکر وفا کے خوگر ہیں شاہ عثمان شان والے
سخی و سرور ہیں بندہ پرور ہیں شاہ عثمان شان والے
وہ مصطفی کےہیں ایسے پیارے کہ ہر مسلمان کو ہیں پیارے
بسے ہیں سب کے دلوں کے اندر ہیں شاہ عثمان شان والے
سخاوتوں کا شمار کیا ہو کہ ہر ادا میں سخا ہے ان کے
تبھی تو سائل کھڑے ہیں در پر ہیں شاہ عثمان شان والے

189
عشق میں گر جو تم روا ہوتے
درد دل کی مرے دوا ہوتے
ساتھ ہوتے جو بن کے میرے تم
میری باتوں کا مدعا ہوتے
بات کرتے جو ان کے مطلب کی
پھر نہ وہ ہم سے یوں خفا ہوتے

98
لکھ رہا ہو ں کلام رحمت کا
جان رحمت تمھاری مدحت کا
دونوں عالم میں چار سو آقا
ذکر جاری ہے تیری رفعت کا
دین و دینا میں جو ضروری ہے
کام ہے بس تری اطاعت کا

146
ان کی الفت میں مبتلا ہوتے
قیس ہوتے نا جانے کیا ہوتے
کھو کے اپنا سکون ہم بھی پھر
کار بے کار میں سدا ہوتے
ہوتا جو پاس اپنے سرمایہ
ہم بھی پھر صاحبِ عبا ہوتے

102
اڑتے پنچھی کو بس دیکھتا رہ گیا
کیا میں آزاد ہوں سوچتا رہ گیا
زلف و رخسار کا یوں ہوا میں اسیر
آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیاۓ
اب رہائی ملی تو کہاں جا ؤں گا
سوچ کر اپنے پر نوچتا رہ گیا

2
317
مری تم سے شناسائی بہت ہے
شناسائی میں گہرائی بہت ہے
نگاہوں سے ہیں پیتے اور پلاتے
ہاں ان میں بادہ پیمائی بہت ہے
اگر جو خود سے مانگا جام ان سے
تو بولے جھٹ سے مہنگائی بہت ہے

152
مرے لب پہ اس کی ہی بات ہے
جو کمال عاشقِ ساز ہے
وہی حسن ہے وہ جمال ہے
وہ کمال ہے با کمال ہے
وہی با وفا وہی دلربا
وہی عشق ہے وہی عاشقی

84
اک تصور مرا یوں جما رہ گیا
درِ غوثِ پیا دیکھتا رہ گیا
نور سے تیرے مخمور ایسا ہوا
دم بخود بس وہیں میں کھڑا رہ گیا
جب سے دیکھا تمہیں شاہ غوث الوری
نقشہ بس تیرا دل میں بسا رہ گیا

208
دل جلا اس طرح کے جلا رہ گیا
بوجھ ایسا کہ دل پر پڑا رہ گیا
وہ گیا روٹھ کر مڑ کے دیکھا نہیں
دیتا اس کو فقط میں صدا رہ گیا
دوست سے بن کے دشمن جو آئے ہو اب
آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا

64
دل میں نفرت کا بھالا گڑا رہ گیا
بعد اس کے بھلا کیا روا رہ گیا
آپ کہتے تھے ہم سے بہت پیار ہے
آپ کا سارا دعوی دھرا رہ گیا
مجھ کو رسوا نہ کر پاس آ کر زرا
زخم دل دیکھ لے تو ہرا رہ گیا

112
دل مرا پھر شہا غمزدہ رہ گیا
دور در سے ترے میں شہا رہ گیا
قافلے چل دیئے اس برس بھی شہا
میں یوں ہی بس انہیں دیکھتا رہ گیا
تیرے در سے پھرا جو وہ رسوا ہوا
در بدر ٹھوکروں میں پڑا رہ گیا

71
فکر میں میری اک تو رسا رہ گیا
میری ہستی میں بس تو رچا رہ گیا
تیرے کوچے میں اک بار رکھا قدم
دل ہے پہلو میں بس یہ گماں رہ گیا
خوب رو دلنشیں یوں تو دیکھے بہت
آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا

131
بنا اب اس کے جینے کا ارادہ کر لیا ہے
کنارہ ہی تو کرنا تھا کنارہ کر لیا ہے
تری بستی میں بسنے کو بنائی ایک کٹیا
بسیرا ہی تو کرنا تھا بسیرا کر لیا ہے
تجھے دیکھا جو شب کو یوں لگا ہے مہر نکلا
سویرا ہی تو کرنا تھا سویرا کر لیا ہے

124
عشق میں بے خودی ضروری ہے
خرد سے دوری بھی ضروری ہے
دل میں غم کروٹیں بدلتا ہو
پر لبوں پر ہنسی ضروری ہے
تیری چاہت کے بعد کہتا ہوں
اب تو یہ زندگی ضروری ہے

139
خواجہ معین و فرید کے پیارے بابا قطب الدین ہمارے
دونوں کے ہی آنکھ کے تارے بابا قطب الدین ہمارے
خواجہ معین الدین کی الفت آپ سے ہے انمول اے پیارے
کہتے ہیں خواجہ جی بھی ہمارے بابا قطب الدین ہمارے
خواجہ پیا کے خلف اکبر چشتی لڑی کے یہ ہیں رہبر
بابا فرید خلیفہ تمھارے بابا قطب الدین ہمارے

82
اے میرے ہم نشیں سن لو
محبت ایک دریا ہے
ہمیں اس پار جانا ہے
اگر یہ فیصلہ کرلو
نہ میرا ساتھ چھوڑو گے
کٹھن ہو راہ گر تو پھر

69
للہ اب خبر لو سرکار غوث اعظم
گھر دل میں میرے کرلو سرکارغوث اعظم
تیرا گدائے در ہوں میں مانتا برا ہوں
دامن کو میرے بھر دو سرکار غوث اعظم
اختر رضا ہیں مرشد ان سے ہوا ہوں تیرا
اب مجھ کو اپنا کرلو سرکار غوث اعظم

218
یہ ترا روٹھنا محبت ہے
پھر ترا ماننا محبت ہے
چبے ہے خار میرے پاؤ ں میں
بھلا ہو آپ کا محبت ہے
تیرے کوچے میں آگۓ دیکھو
کہو آنا ترا محبت ہے

103
جب میں نے تمھارا نام لیا دل تھام لیا دل تھام لیا
تو مجھ میں چھپا یہ جان لیا دل تھام لیا دل تھام لیا
صورت ہے بسی من میں ہے مرے اک یاد بسی دل میں ہے مرے
ہے عشق ترا یہ جان لیا دل تھام لیا دل تھا م لیا
اک خواب دکھا جلوہ ہو تیرا جلوہ ہو تیرا میں ہوں پیا
دیکھوں میں کہوں پہچان لیا دل تھام لیا دل تھام لیا

93
مایوس ہو کے بیٹھے ہیں تاریک رات میں
اور اشک چھلکے پڑتے ہیں اب بات بات میں
کردیں نہ ہم پہ ٹھنڈی ہوائیں بھی کوئی وار
ٹائر جلا کے بیٹھے ہیں برفیلی رات میں
اے دل تو کیوں پریشاں ہے جب رب ہے ساتھ میں
وہ دیکھ لے گا سب کو جو دشمن ہیں گھات میں

98
منتظر ہو ں میں شہا مجھ پہ نظر ہو جائے
خاص رحمت سے تری ابر کرم ہو جائے
غم مرا دور ہو اے شاہ مدینہ میرے
باڑ خوشیوں کی لگے شاہ امم ہو جائے
جام عرفاں پیوں اک روز تو آقا میرے
اور نظروں میں مرے شاہ حرم ہو جائے

108
مرے حضور کے دم سے ہی یہ بہار چلے
وہ نبض زندگی ہیں ان سے ہی مدار چلے
تمہاری یاد نے دل کو ہے بے قرار کیا
چلے جو قافلہِ عشق سوئے یار چلے
رہے گا اس کو خسارہ یقیں ہے عقبی میں
جو راہ ہٹ کے چلے شترِ بے مہار چلے

120
یہ آنکھ نہیں آپ کے دیدار کے قابل
اور جسم نہیں آپ کے دربار کے قابل
یہ کیسے کہوں آپ سے اک دست تسلی
رکھ دیجئے کے دل نہیں اس داد کے قابل
اتنے ہو کریم آپ کہ ڈھارس ہےبندھائی
ورنہ تو کہاں عرض ہے فریاد کے قابل

141
قرار جان ہو تم وجہ بے قراری ہو
چلے بھی آؤ کہ تم وجہ آہ و زاری ہو
وجود عشق کو تم سے دوام ملتا ہے
مرے بھی قلب کی اب ایسی آب یاری ہو
تمھاری یاد میں مچلوں میں گھوموں بےکل سا
نقاب رخ جو أٹھاؤ سکون طاری ہو

72
ان کو ہمارے حال کی یارو خبر کہاں
نظریں کہیں ہیں اور ہے ہم پر نظر کہاں
بے ساختہ ہو بات مری بات اور ہے
ورنہ زبان یار پہ میرا گزر کہاں
جو کر ہی چکا ترک تعلق تو پھر اسے
کیوں فکر ہو کہ ساتھ تھا جو ہمسفر کہاں

88
کھو دیا چین و سکون آپ کی چاہت کے لئے
ہم نے کیا کیا نہ کیا آپ کی راحت کے لئے
لب و لہجہ ہی نہیں آپ نے سب کچھ اپنا
ہم سے بدلا ہے فقط ہم سے بغاوت کے لئے
تم پہ لازم تھا کہ ہر بات کو سہ جاتے تم
یہ کہا آپ نے کے ہم سے محبت کے لئے

64
ان کے عشاق کی کیوں شان نا ہوسب سے جدا
جب کہ نبیوں میں ہوئے ہیں وہ نبی سب سے جدا

102
آیت تطہیر سے رتبہ سمجھ آیا ہمیں
ہے مقام اعلی کتنا اہل بیت پاک کا
۔۔۔۔۔۔۔۔

86
عشق احمد نے یوں معتبر کر دیا
قلب و لب پے درودوں نے گھر کر دیا
جو درِ مصطفی کا گدا ہو گیا
آپ نے اس کو میرِ شہر کر دیا
دامنِ مصطفی میں جب آئے عمر
پیارے آقا نے فاروق عمر کر دیا

103
مرے آقا گناہوں سے مجھے اب تو بری کردیں
کریں نظرِ کرم مجھ پر شہا اب تو بری کردیں
گناہوں کی نحوست نے سکون و چین لوٹا ہے
ہوئی برباد کھیتی ہے شہا اب تو ہری کر دیں
مری سینے میں اپنے عشق کو آقا بڑھائیں یوں
رکھیں دستِ تسلی اور مری قسمت کھری کر دیں

96
دیکھتے دیکھتے دیکھتے رہ گئے
نقش ذیبا ترے دیکھتے رہ گئے
جب سے دیکھا تجھے اے حسیں مہ جبیں
بس تجھے ہی تجھے دیکھتے رہ گئے
نقش تیرے حسیں نین ہے آب گیں
ڈوبتے ڈوبتے دیکھتے رہ گئے

138
یانبی کرم تیرا میرے غم کا درماں ہے
یاد تیری ہر لمحہ میری کرم فرماں ہے
حسرتیں ہوئی پوری آپ کی عنایت سے
آؤں میں مدینے میں بس یہی تو ارماں ہے
فکر کی رسائی میں جب سے شہر تیرا ہے
یاد سے تری آقا دل بھی اب گلستاں ہے

117
عشق کے یہ امتحاں بھی خوب ہے
فاصلے یہ درمیاں بھی خوب ہے
آپ کی الفت ملے کیا چاہئے
آپ کی تو اک نظر ہی خوب ہے
عشق پیارے آپ کا آبِ حیات
جاودانی اس سے ملتی خوب ہے

110
تجھ کو پانے کے لئے خود کو بھلا دیتے ہیں
بات کہنے کی ہے سن خود کو مٹا دیتے ہیں
کشتیِ عشق کی منزل ہے تو ہی جان وفا
اب اگر کہئے تو پتوار جلا دیتے ہیں
طوق الفت کا تو برسوں سے پڑا گردن میں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں

354
چلو ہم بے وفا ہیں مان لیتے ہیں
مگر شکوہ ہےتم سے
کچھ وفا تم ہی نبھا لیتے
گزارے لمحوں میں
ان لمحوں کی تجدید کر لیتے
کہ جن میں پیار تھا

84
فکر امت میں اصرار یاد آگئے
ان کی رحمت کے اظہار یاد آگئے
بخشیں جائیں گے آقا کے سب امتی
ربِ کعبہ کے اقرار یاد آگئے
عشق مرسل ہے دونوں جہاں میں حیات
فکر مرشد کے اسرار یاد آگئے

144
مرے قلب کی ہیں صدا غوث اعظم
مرے پیشوا رہنما غوث اعظم
دکھوں نے ہے گھیرا مصیبت کا پہرا
بچا ان سے ہے التجا غوث اعظم
تمھاری محبت کو دل میں بسائے
سجائے ہوں اک گلستاں غوث اعظم

108
غنچہِ دل کھلا میرے اختر رضا
میرے دل میں سما میرے اختر رضا
جان ہے آپ کی ہے یہ تن بھی ترا
خوب اس کو جلا میرے اختر رضا
آس ہے دید کی پیاس ہے دید کی
اب تو اس کو بجھا میرے اختررضا

97
خطاؤں سے پر ہے یہ بندہ تمھارا
کرم ہو خدارا کرم ہو خدارا
ہوں کمتر نکما نہیں پاس کچھ بھی
فقط یہ ہے توشہ کہ ہوں میں تمھارا
سما دو مرے دل میں اپنی محبت
کہ تیرے سوا سب سے ہو اب کنارہ

133
بخت میرا سنوار دو مرشد
مجھ کو اب تو نکھار دو مرشد
تیرا سائل ہوں تیرا دیوانہ
اپنا کہہ کر قرار دو مرشد
میں کہ کوئی نکما سگ ہی رہا
مہر دیکر وقار دو مرشد

84
اے بہارِ عرب تیری کیا بات ہے
اے نگارِ عرب تیری کیا بات ہے
گلَزارِعرب تیری کیا بات ہے
کہسارِعرب تیری کیا بات ہے
اعلی ہے مرتبہ تیرا ارضِ عرب
تیرے خطے میں ہے طیبہ اور حرم

70
چراغ چشت شاہ ہند آفتاب اولیا
تری نگاہ پاک سے بنے ہزاروں صوفیا
چراغ دہلی قطب دیں فرید یا نظام ہوں
ہیں تیرے نور کی ضیا اے آفتاب اولیا
مرے نصاب میں تری طلب اے میرے ناخدا
پلا دے اپنے ہاتھ سے شراب عشق جان جاں

353
دل کی چوکھٹ پہ ترا نام سجا رکھا ہے
ہم نے یہ در ہی ترے نام لگا رکھا ہے
تیرے قدموں کی تجلی سے جلا پانے کو
ہم نے آنکھوں کو سرے راہ بچھا رکھا ہے
تیری نظروں سے جلا پانے کو میرے آقا
خود کو بھی آپ کا بیمار بنا رکھا ہے

137
دل کی باتیں انہی سے کہتے ہیں
اک وہ ہی ہیں جو جان لیتے ہیں
پوری کرتے ہیں من کی وہ باتیں
ہر طلب بے طلب وہ دیتے ہیں
لو لگاۓ جو کوئی گر ان سے
اس کو اپنا وہ کر ہی لیتے ہیں

81
نور سرکار سے معمورفضا کیف میں ہے
شہر بطحہ کی فضا صبح و مسا کیف میں ہے
طبع غمگین تھی ،پھر یاد جب آئی ان کی
غم یوں کافور ہوا کے یہ گدا کیف میں ہے
مدح سرکار دو عالم سے ہے روشن عالم
گوشہ گوشہ ہے سجا ارض و سما کیف میں ہے

232
اے خدا تو از پئے شافع امم کردے کرم
مشکلوں کا آفتوں کا بار ہے کردے کرم
تو ہی تو ہےقرب والا ہر قریبی سے خدا
جانتا ہے حال تو کیا حال ہے کردے کرم
دور تجھ سے میں ہوا ہوں ہاۓ بد کاری سبب
غفلتوں کا دل پہ اک آزار ہے کردے کرم

126
اپنے روضے کے نظارے مجھے آقا دیدو
یعنی جینے کے سہارے مجھے آقا دیدو
بخت میرا بھی سنور جاۓگا میرے آقا
اپنے قدموں کے اتارے مجھے آقا دیدو
ڈولتی ہے مری کشتی شہا طوفانوں میں
بحر عصیاں سے کنارے مجھے آقا دیدو

136