وہی بس دوست دل کو بھاتے ہیں
بے غرض یاری جو نبھاتے ہیں
نفسا نفسی میں باوفا جورہے
دل میں تو بس وہی رہ جاتے ہیں
لوگ کیا کیا فریب دیتے ہیں
لوگ کیا کیا فریب کھاتے ہیں
روز آکر گلی میں وہ میری
روز ہی دل مرا جلاتے ہیں
جس کو اپنا سمجھ کے مان دیا
آج وہ ہم پہ ہی ٹڑاتے ہیں
چھوڑ کے جا چکے تو یادوں میں
اب ستانے کو پھر کیوں آتے ہیں
کہہ کہ ذیشاں وہ با وفا خود کو
ہم کو وہ آپ ہی ہنساتے ہیں

122