آج بھی ان کے پرستار ہیں ہم |
ان کی الفت میں گرفتار ہیں ہم |
وہ بھلے مجھ سے جفا کرتے رہیں |
عشق میں صاحبِ کردار ہیں ہم |
نکلے ہو بیچنے پندار حسن |
بیچ دو ہم کو خریدار ہیں ہم |
ہم نے اک بات ہی تو بولی تھی |
کیوں سمجھتے ہو کہ عیار ہیں ہم |
یوں نہ رسوا سرِ بازار کرو |
مانتے ہیں کہ گنہ گار ہیں ہم |
عشق میں منزلیں سر کرلیں گے |
تم جو گر ساتھ دو تیار ہیں ہم |
وقت بدلا ہے مگر سن جاناں |
آج بھی تیرے طلب گار ہیں ہم |
بیٹھے گر راہ میں تیری ہم ہیں |
تم سمجھتے ہو کہ بیکار ہیں ہم |
بد مجھے تم نے فقط جانا ہے |
لوگ کہتے ہیں کہ خیار ہیں ہم |
جانے کیوں آج خفا یار ہیں ہم |
کیوں یہ لگتا ہے خطاکار ہیں ہم |
آہ سچ بولنے کی برکت ہے |
لوگ کہتے ہیں کہ طرار ہیں ہم |
پیارے اس بے وفا سی دنیامیں |
ایک دم توڑتی اقدار ہیں ہم |
شکریہ آپ کا مگر سچ ہے |
گل نہیں اب تو پیا خار ہیں ہم |
ہو اگر عشق میں جو تم بیمار |
آپ بیمار تو تیمار ہیں ہم |
ہم بدلنے کے نہیں سن لو یہ |
آج بھی ویسے ہی سرکار ہیں ہم |
ناز تھا جن پہ وفا کو ذیشاں |
دورے ماضی کا وہ کردار ہیں ہم |
معلومات