یانبی کرم تیرا میرے غم کا درماں ہے
یاد تیری ہر لمحہ میری کرم فرماں ہے
حسرتیں ہوئی پوری آپ کی عنایت سے
آؤں میں مدینے میں بس یہی تو ارماں ہے
فکر کی رسائی میں جب سے شہر تیرا ہے
یاد سے تری آقا دل بھی اب گلستاں ہے
جالیاں دیار و در دیکھنے کی حسرت ہے
آؤں کس طرح آقا بندہ خالی داماں ہے
شرم ہے ندامت ہے آنکھ پانی پانی ہے
سامنا ہے محشر کا اور فرد عصیاں ہے
پہلے حبِ دنیا میں دل لگا تھا پر اب تو
نعت دار سوچوں سے دل بہشت ساماں ہے
سنتوں پہ چلنا ہے اب نہیں الجھنا ہے
سنتوں سے ہی شمعِ عشق کی فروزاں ہے
جان تو یہ جانی ہے اے ذیشان حق یہ ہے
ان کے نام پر جائے یہ ہی کار ذیشاں ہے

117