بے فیض ہی رہ جاتے سرکار کدھر جاتے
ٹھوکر جہاں میں کھاتے سرکا ر کدھر جاتے
احسان ہے یہ رب کا کلمہ تیرا پڑھا ہے
حاشا یوں ہی رہ جاتے سرکار کدھر جاتے
رحمت ہو کل جہاں کی نعمت ہو کبریا کی
گر آپ کو نا پاتے سرکار کدھر جاتے
امت سے محبت میں چشمان کرم روئے
یہ لطف نہ فرماتے سرکار کدھر جاتے
ہم جھڑکیوں کے لائق قابل تھے نار کے ہم
جو آپ نہ نبھاتے سرکار کدھر جاتے
جاؤک سن کے پھر بھی غفلت میں ہی رہ جاتے
بخشش کو نہیں آتے سرکار کدھر جاتے
کھیلوں میں گنوا دی ہے سب عمر رواں اپنی
اب بھی نہ سمجھ پاتے سرکار کدھر جاتے
اے شاہ بنی آدم اے نعمتوں کے قاسم
تم نا عطا فرماتے سرکار کدھر جاتے
نامہ سیا لیکر محشر میں ہیں شرمائے
جو تم نہ بخشواتے سرکار کدھر جاتے
آقا کی ثناء خوانی ذیشان ہے سرمایہ
گر یہ بھی نا کر پاتے سرکار کدھر جاتے

104