چراغ چشت شاہ ہند آفتاب اولیا |
تری نگاہ پاک سے بنے ہزاروں صوفیا |
چراغ دہلی قطب دیں فرید یا نظام ہوں |
ہیں تیرے نور کی ضیا اے آفتاب اولیا |
مرے نصاب میں تری طلب اے میرے ناخدا |
پلا دے اپنے ہاتھ سے شراب عشق جان جاں |
کتاب عشق میں پڑھا خطاب تیرا باخدا |
مدار عشق ہے تو ہی اے پیشواۓ اولیاء |
رہے گا کب تلک پیا یہ رخ ترا نقاب میں۔ |
دکھادو اب تو رخ زرا ہے اب تلک حجاب میں |
نگاہ شوق منتظر ہے آپ کی جناب میں |
قرار شوق ہے تو ہی اے تاجدار چشتیہ |
شمار میرا بھی پیا ترے غلاموں میں رہے |
یہ زندگی مری سدا ترے اجالوں میں رہے۔ |
چمک دمک مری سدا ترے حصاروں میں رہے۔ |
کہ ناز بے کساں تو ہی اے شہریار اولیاء۔ |
تری نگاہ ناز پڑگئ ہے جس پہ باخدا |
نکل کہ ظلمتوں سے تیرے آستاں پہ آگیا |
تو حید کی شراب سے نہال تو نے کر دیا |
یہ شان واللہ ہے تری اے آفتاب اولیاء |
سمٹ کے کوزے میں وہ سارا آنا ساگر آگیا۔ |
یہ حکم آپکا تھا کےوہ کوزے میں سما گیا |
وہ جادو گر بھی آپ کی نگاہ کا تیر کھا گیا |
تصرف اس طرح سے خواجہ آپ نے دکھا دیا۔ |
کروں نہ ذکر کیوں ترا کے لال تم علی کے ہو |
نبی کی آل سیدہ بتول کے قرار ہو |
حسینی فکر کے امیں ہو سیدوں کے رازدا |
صفات و ذات میں پیا تو بے مثل ہے بے بہا۔۔ |
غریبوں ہوں میں کیا ہوا وہ غم گسار ہے مرا۔ |
نوازنے کو خواجہ ہے وہ تاجدار ہے مرا |
ہے شکر یا خدا ترا تری عطا سے وہ مرا |
سرور قلب و جان ہے وہ شہر یار ہے مرا |
مجال ہے ذیشان کی کے لکھے منقبت تری |
عنایتیں ہیں یہ تری نوازشیں ہیں یہ تری۔ |
سجا کے قلب یاد سے ہے من کو اجلا کر دیا |
کہ لکھ سکا ہوں منقبت میں آفتاب اولیا |
معلومات