مژدہِ جاںَ فزاں سنا دیتے
جان غم سے مری چھڑا دیتے
ازنِ بطحہ سے آتی جان میں جاں
کہ وہاں جام اک پلا دیتے
کتنی پیاری ہے جاں فزاں کیاری
کاش سجدے وہیں ادا ہوتے
خاکِ در ملتی کاش ہم کو بھی
رشک صد رشک مہر و مہ ہوتے
روتے ہیں ہچکیوں سے لوگ وہاں
جب ہیں وہ آپ سے جدا ہوتے
یہ جدائی بھی ختم کردیں گے
وہ ہیں فرقت میں بھی مزا دیتے
ہے فقط آپ سے گزارش یہ
کیوں بھلا غیر کو ندا دیتے
رنج و غم دور ہو ں مرے سب ہی
کہ یہ خوشیوں کو ہیں بھگا دیتے
مرضِ عصیاں سے بھی شفا ہوتی
دست اپنا زرا جما دیتے
یانبی صدقے پیارے بیٹوں کے
اپنا دیدار ہی کرا دیتے
جو نہ بھولے ذیشان ہم کو کبھی
ان سے ہم دل کو ہیں جلا دیتے

72