دل کی چوکھٹ پہ ترا نام سجا رکھا ہے
ہم نے یہ در ہی ترے نام لگا رکھا ہے
تیرے قدموں کی تجلی سے جلا پانے کو
ہم نے آنکھوں کو سرے راہ بچھا رکھا ہے
تیری نظروں سے جلا پانے کو میرے آقا
خود کو بھی آپ کا بیمار بنا رکھا ہے
جام دیدار کا اک دن تو پیوں گا میں بھی
تشنگی کو اسی امید بڑھا رکھا ہے
چاہ زم زم پہ بھی جو پاۓ فضیلت پانی
دست سرکار نے وہ چشمہ رواں رکھا ہے
ہر بلندی سے بلند آۓ نظر انکی زات
جن کو خود رب نے بھی محبوب بنا رکھا ہے
ہم سے بدکار کے خاطر مرے آقا تم نے
جاری چشمان سے اک سیل رواں رکھا ہے
صدق و فاروق ترے صدقے میں واری جاؤں
تم کو سرکار نے پہلو میں سلا رکھا ہے
مثل سے پاک وہ ہر پست سے آزاد ہیں وہ
فقر میں جس نے سخاوت کو روا رکھا ہے
ارے ذیشان نظر ان کے کرم پر رکھ تو
جس نے رحمت سے جہاں بھر کو چھپا رکھا ہے۔

130