کیا گلستاں آل احمد نے لگایا ریت پر
پھول جیسے جسموں کو خود ہی سجایا ریت پر
کارواں پہنچا جو کربل سامنے لشکر کھڑا
حکم پر سید کے پھر خیمہ لگایا ریت پر
جبر کا اک سلسلہ تھا آلِ احمد پر روا
ظالموں نے بے خطاؤں کو ستایا ریت پر
چاہتے گر آپ دشمن کو تبا کردیتے پر
مرضیٔ رب پر نظر ہے سر جھکایا ریت پر
جانتے تھے رب کی مرضی مصطفی کے قول کو
نانا سے جو کر چکے وعدہ نبھایا ریت پر
ابنِ حیدر ہوں میں اور ہیں مصطفی نانا مرے
ظالموں کو ابن حیدر نے بتایا ریت پر
تاکہ محشر میں کوئی باقی رہے نا عذر پاس
ابن حیدر نے تبھی خطبہ سنایا ریت پر
رن میں جب آئے ہیں آلِ مصطفی شمشیر زن
ہر جواں نے ظلم کو حق سے ہرایا ریت پر
کیسے پلٹی حضرتِ حر کی بھی کایا واہ واہ
کس طرح نارِ جہنم سے بچایا ریت پر
حضرتِ غازی جہاں میں کوئی ہے تم سا نہیں
شانے یوں اپنے کٹانا تیر کھانا ریت پر
دل وہیں اٹکا ہوا ہے جان بے کل ہوگیٔ
کیسے کیسے ظالموں نے ہے ستایا ریت پر
اکبر و قاسم محمد عون ہو تم پر درود
بو بکر عثماں نے بھی خود کو لٹایا ریت پر
چومتے تھے سرورِ ذیشان جس حلقوم کو
آہ اس حلقوم پر جنجر چلایا ریت پر
آسماں بھی رو دیا حیرت زدہ ہے ہر نظر
کیسا جور و جبر کا طوفان اٹھایا ریت پر
آبیاری دین کی ایسی نہ کوئی کرسکے
آل اطہر نے لہو اپنا بہایا ریت پر
آل واصحا ب امام ابن حیدر کو سلام
جان دے کر حق کاپرچم ہے اٹھایا ریت پر
دل کی حالت غیر کیوں نا ہو یہ منظر دیکھ کر
سیدہ کے لال پر کیا وقت آیا ریت پر
دے رہا قرآن ہے جن سے مودت کا سبق
بد نصیبوں نے انہیں کو ہے رلایا ریت پر
عابدِ بیمار ہے اور ہر طرف لاشے بچھے
وقت کیسا ہے کٹھن ہے بے سہارا ریت پر
نا کوئی محرم ہے باقی ایک عابد ہیں بچے
سیدہ کا گھر لٹا سارے کا سارا ریت پر
پاک بییوں کے سر سے سائباں بھی چھن گیا
ظلم ہائے ظلم یہ کیسا ہے ڈھایا ریت پر
دل پہ غم چھایا ہوا ہے اور ہیں آنکھیں بھی نم
جس نے خاکی کو ہے یہ منظر دکھایا ریت پر

80