ان کی یادوں سے دل نگینہ ہے سن
بخت روشن ہے خوب جینا ہے سن
یادِ مرشد سے یاد ملتی ہے
یاد مرشد کی ان کا زینہ ہے سن
بے خبر وہ نہیں خبر ہے انہیں
دل تو حسرت کا اک دفینہ ہے سن
ڈوبتے کو تراتے ہیں پل میں
دستِ پر نور تو سفینہ ہے سن
دل میں روشن ہے ہجر کی آتش
اور نظروں میں بھی مدینہ ہے سن
جو ہو آباد تیرے جلووں سے دل
اس سے بڑھ کر کوئی خزینہ ہے سن
مہکے جس سے مدینے کے کوچے
مشک و عنبر ہے کیا پسینہ ہے سن
اب تو قدموں میں آقا آؤں میں
دور رہ کر بھی کیا یہ جینا ہے سن
اتنے احسانوں پر تو نازاں نہیں
آہ ذیشان تو کمینہ ہے سن

116