نگا میں آپ سا کوئی نہیں ہے
تمھارا دوسرا کوئی نہیں ہے
ہمارے گرد سب اہلِ جفا ہیں
بجز اہلِ وفا کوئی نہیں ہے
ملا ہے گر دغا قسمت ہے میری
نہیں تیری خطا کوئی نہیں ہے
وہ دیتے ہیں جو طعنہ بے رخی کا
انہیں شرم و حیا کوئی نہیں ہے
لبوں کو سی لیا اب لب پہ کوئی
مرے حرفِ دعا کوئی نہیں ہے
بہت سے لوگ ہیں طالب ہیں میرے
جو ہو ہم پر فدا کوئی نہیں ہے
وہ جو ہستی کا ساماں تھے کبھی تو
اب ان سے واسطہ کوئی نہیں ہے
صدا دی تھی تمہیں ہر ایک در سے
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
غرض کو چھوڑ کر جو مجھ کو چاھتا
ہو ایسا با صفا کوئی نہیں ہے
جہاں ذیشان ہو مطلب کی یاری
وہاں ہوں باوفا کوئی نہیں ہے

94