چراغ گل بھی ہوا روشنی رہی پھر بھی |
نقا ب رخ پہ رہا چاندنی رہی پھر بھی |
نگاہ شوخ تھی پر سادگی رہی پھر بھی |
ملے ہیں اس سے مگر اک کمی رہی پھر بھی |
فراق ختم ہوا تشنگی رہی پھر بھی |
جمال یار کی تعریف میں کا بولوں میں |
نصاب کون سا ہو جس میں حسن تولوں میں |
بتاؤ کیسے بھلا ان کے بھید کھولوں میں |
ہزار بار اگر ان کو مہر کہہ لوں میں |
کہوں گا میں تو یہی عاجزی رہی پھربھی |
خرد بھی دیکھ کر ان کو ہوئی ہے اب رخصت |
نجانے کیسے ہو دیوانگی سے اب صحت |
کہ دل کو ہے تو اگر صرف ان سے ہے راحت |
چلے بھی آؤ نا کے چاہئے اسے وصلت |
جنوں ہے لاکھ تری آگہی رہی پھربھی |
لگی ہے آگ ترے عشق کی مرے دل میں |
ترے لئے ہی تو ہے انجمن سجی دل میں |
بتائیے تو زرا اب ہے کیا کمی دل میں |
چبو رہے ہو کوں نشتر پیا مرے دل میں |
کہ ہے تو سب یہ مگر کچھ کجی رہی پھر بھی |
نہیں خبر ہے تمہیں کتنا چاہا ہے میں نے |
تمھارے واسطے کیا کچھ گنوایا ہے میں نے |
قرار چین و سکوں سب لٹایا ہے میں نے |
ہاں یہ ہی سچ ہے تجھے اپنا مانا ہے میں نے |
قرار جان کوں یہ بے رخی رہی پھر بھی |
ہے ان کہی جو کوئی بات تو کہو مجھ سے |
نہیں ہے ایسا تو گر کہہ دو یہ پیا مجھ سے |
کہ جتنی چاہ تجھے مجھ سے ہے مجھے تجھ سے |
یا پھر کہو مجھے خاکی تھی دل لگی تجھ سے |
تجھے نا جانے کوں یہ بے خودی رہی پھر بھی |
معلومات