مرے نصیب میں ایسا قیام ہو جائے
درِ رسول پہ ہستی کی شام ہو جائے
سجائے بیٹھا ہوں دل کو اس لئے مولا
نگاہِ ناز کا دل پر خرام ہو جائے
جدھر نظر ہو ادھر جلوے آپ کے دیکھوں
دل و نگاہ میں یہ اہتمام ہو جائے
فضول باتیں ختم ہوں ہو ایسی عادت بس
لبوں پہ جاری درود و سلام ہو جائے
ہے مدتوں سے تمنا یہ قلب مضطر میں
سلام کے لئے حاضر غلام ہو جائے
بناتے آپ ہیں بگڑی غلاموں کی آقا
ہے بگڑا کام جو میرا تمام ہو جائے
اے کاش آپ کہیں تو ذیشان میرا ہے
ہو خواب میں ہی مگر کچھ کلام ہو جائے

140