قرار جان ہو تم وجہ بے قراری ہو
چلے بھی آؤ کہ تم وجہ آہ و زاری ہو
وجود عشق کو تم سے دوام ملتا ہے
مرے بھی قلب کی اب ایسی آب یاری ہو
تمھاری یاد میں مچلوں میں گھوموں بےکل سا
نقاب رخ جو أٹھاؤ سکون طاری ہو
فساد نفس ہے اور ناتواں مسافر ہے
کہیں نہ ایسا ہو محشر میں شرم ساری ہو
تمھاری ملک ہے ایسی جسے جو چاہو دو
اے کاش مجھ کو عطا تیری و فا داری ہو
فراق قرب ہو خلوت ہو یا کہ جلوت ہو
مرے نفس میں فقط تیری یاد جاری ہو
الہی کردے عطا ایسی فکر کے لب پر
سلام و نعت کے گجرےدرود جاری ہو
الہی وقت نزع یاد ان کو کرتا ہوں
مرے نصیب میں ان کی یہ غم گساری ہو
خدا کی خلق میں بے عیب بے مثال ہوئے
نظر جو آئے وہ گنبد وہ جالیاں تیری
نگاہ مست ہو اور دل پہ کیف طاری ہو
صحابہ آپ کے سب ہی ہیں زینتِ ایماں
یہی ہے عرض شہا سب کی تابعِ داری ہو
دکھادو رخ کے ہوا عرصہ تیرے ذیشان کو
جھلک ہو آ پ کی اور رسم طرح داری ہو

58