| مری تم سے شناسائی بہت ہے |
| شناسائی میں گہرائی بہت ہے |
| نگاہوں سے ہیں پیتے اور پلاتے |
| ہاں ان میں بادہ پیمائی بہت ہے |
| اگر جو خود سے مانگا جام ان سے |
| تو بولے جھٹ سے مہنگائی بہت ہے |
| رہا جلوت میں بھی ہوں پھر بھی یارو |
| یاں میرے دل میں تنہائی بہت ہے |
| تصور میں جو دیکھا اک حسیں کو |
| وہ اک تصویر بس بھائی بہت ہے |
| کہا کیا بے وفا ہو ں یہ بتاؤ |
| کہا کے اس میں سچائی بہت ہے |
| حقیقت کیسے پڑھ لی جان کر یہ |
| نظر بھی اس سے شرمائی بہت ہے |
| مہک آنے کا اس کا تھا اشارہ |
| مگر وہ دیر سے آئی بہت ہے |
| اگر چہ ناز ہے انداز والے |
| مگر باتوں میں دانائی بہت ہے |
| شبِ غم میں نہیں تنہا ہے ذیشان |
| وہ میرے ساتھ ہم راہی بہت ہے |
معلومات