| کھو دیا چین و سکون آپ کی چاہت کے لئے |
| ہم نے کیا کیا نہ کیا آپ کی راحت کے لئے |
| لب و لہجہ ہی نہیں آپ نے سب کچھ اپنا |
| ہم سے بدلا ہے فقط ہم سے بغاوت کے لئے |
| تم پہ لازم تھا کہ ہر بات کو سہ جاتے تم |
| یہ کہا آپ نے کے ہم سے محبت کے لئے |
| بات تو ٹھیک ہے پر یہ بھی تو دیکھو صاحب |
| سہنا لازم ہے کہاں بغض و عداوت کے لئے |
| میں نے ہر بات پہ خود کو ہی سزا دے ڈالی |
| کیا یہ کافی نہ تھا سن میری شرافت کے لئے |
| آج بھی کہتے ہو تم بے وفا بے طور تھا میں |
| یہ تو تمغہ ہے سنو میری نجابت کے لئے |
| شکوہ ہرگز نہ ہو ذیشان بے و فائی کا |
| ظرف گر کم ہو تو شکوہ ہے خجالت کے لئے |
| ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
معلومات