انسان ہوں میں شمع کا پروانہ نہیں ہوں
چھیڑو نہ مجھے میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں
بیٹھا ہوں پیا یاد میں تم سمجھے بھلا کیا
ہیں ان سے مراسم کوئی انجانا نہیں ہوں
ظاہر پہ نہ تو حکم دے اس حال پہ میرے
میں عشق سے آباد ہوں ویرانہ نہیں ہوں
پھرتا ہوں اگر کوچہ و بازار میں تو کیا
اے گردش ایام میں مستانہ نہیں ہوں
اپنا بنا کے چھوڑنا پھر تولنا تیرا
ان عادتوں سے ایک میں بیگانہ نہیں ہوں
جو کچھ ہے مری فکر وہ حق بات ہے واللہ
کردار ہوں اک جاگتا افسانہ نہیں ہوں۔
ذیشان مری تشنہ لبی کہتی ہے ان سے
اک رند ہوں ساقی نہیں میخانہ نہیں ہوں

112