تضمین کلام اعلیحضرت
حضور سیدی سندی آقائی مرشدی
غوث الاعظم رضی اللہ عنہ
از قلم سگ راہ مدینہ
خواجہ محمد ذیشان خان اختر القادری چشتی نظامی قلندری
شان اونچی ہے تری سلسلہ اعلی تیرا
شاہ جیلان ہوا فیض نرالا تیرا
سرنگوں ہوتا نہیں شاہ پھریرا تیرا
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اُونچے اُونچوں کےسَروں سےقدَم اعلیٰ تیرا
کسکی ہمت کہ وہ دیکھےشہا چہرہ تیرا
نور حق سے ہوا مملو رخ زیبا تیرا
تیری ہیبت سے جھکا پڑتا ہےشیدا تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
تیرے خدام پہ ہر دم ہوا پہرا تیرا
ہوا بےخوف و خطر ماننے والا تیرا
لا تخف تیرے مریدوں کو ہےکہنا تیرا
کیا دَبے جس پہ حِمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کُتّا تیرا
نسبت نبوی ہے توکیوں نہ رفیع الدیں ہو
نسبت زہرہ ہےتو کیوں نہ مبین الدیں ہو
حیدری خون ہے توکیوں نہ معین الدیں ہو
تُو حُسینی حَسَنی کیوں نہ محی الدّیں ہو
اے خِضَر مَجْمَعِ بَحْرَیْن ہے چشمہ تیرا
حسن والشمس الضحی کا ہے نظارہ دیکھا
رخ انور کی ضیا کا ہے اجالا دیکھا
دیکھا مازاغ کا ہے اس نے توجلوہ دیکھا
مصطفیٰ کے تنے ِبے سایہ کا سایہ دیکھا
جس نے دیکھا مری جاں جلوۂ زیبا تیرا
تیرے دربار میں حاکم بھی ہے تو خادم ہے
بادشاہوں سے بھی بڑھ کر تو ہوا حاکم ہے
جود کا باڑا ہو جاری یہ شہا لازم ہے
کیوں نہ قاسِم ہو کہ تُو ابنِ ابی القاسم ہے
کیوں نہ قادِر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا
تیری خوشبو سے معطر ہے ولایت کا چمن
سارے شیوخ سےاعلی ہوئی ہےتیری پھبن
تیرےرخ پر ہو فدا غوث پیا باغ عدن
نبوی مینھ علوی فصل بتولی گلشن
حَسنی پھول حُسینی ہے مہکنا تیرا
اک نظر کیجئے مجھ پر بھی مرے مہ جلیل
نور سے اجلا ہو یہ دل کرو ایسی تو سبیل
کہ نسب اعلی ہے تیرا تو ہے روشن قندیل
نبوی ظِل عَلوی برج بتولی منزل
حَسنی چاند حُسینی ہے اُجالا تیرا
اپنے عشاق کے کیوں کر نہ ہوں میراں ضامن
ہے مریدوں کے یہی فضل خدا سے مامن
کیوں نہ چمکائیں گے عشاق کا میرا ں باطن
نبوی خُور عَلَوی کوہ بتولی مَعْدِن
حَسنی لعل حُسینی ہے تجلّا تیرا
حکم رب سے ہے ترے زیر نگیں کوہ و دمن
تیری سلطانی میں بستے ہیں شہا سارے وطن
ہرجہت میں کیوں نہ چرچا ہو ترا شاہ زمن
بحرو برشہر و قُریٰ سہل و حُزُن دشت و چمن
کون سے چَک پہ پہنچتا نہیں دعویٰ تیرا
ہے بھلا عطیہ ترا جو کبھی پھرتا ہی نہیں
تیرا ارشاد ہے حق جو کبھی ٹلتا ہی نہیں
مانگ لو ان کے وسیلے سے جو ملتا ہی نہیں
حُسنِ نیّت ہو خطا پھر کبھی کرتا ہی نہیں
آزمایا ہے یگانہ ہے دو گانہ تیرا
شاہ جیلاں مرےاحوال کی ہےتم کو خبر
لب ہیں خاموش مگر دل پہ تو ہے تیری نظر
سوز الفت سے جلے جاتے ہیں اب قلب و جگر
عرضِ اَحوال کی پیاسوں میں کہاں تاب مگر
آنکھیں اے اَبر ِکرم تکتی ہیں رَستا تیرا
کیسے بتلاؤں کے کیا ہیں مرے کردار میں جھول
نفس و شیطان کے نرغے ہیں برائی کا ہے غول
المدد اے شہے جیلاں مجھے اس قید سے کھول
موت نزدیک گناہوں کی تَہیں مَیل کے خول
آ برس جا کہ نہا دھو لے یہ پیاسا تیرا
یہ تصور ہی بہت لطف دلاتا ہے مجھے
طاعت رب کی یہ معراج بتاتا ہے مجھے
تیرا رتبہ ترا رب ہی تو دکھاتا ہے تجھے
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ تِرا چاہنے والا تیرا
دی خدا نے تجھےآقا یہ انوکھی رفعت
زیر پایہ ہیں ولی تیرےیہ تیری عظمت
عبد قادر کو عطا کی یہ خدا نے عزت
اِبنِ زَہرا کو مبارک ہو عَروسِ قدرت
قادِری پائیں تصدّق مرے دُولہا تیرا
سربالیں وہ مرےآئیں گےراحت یہ ہے
رخ زیبا بھی دکھائیں گےعنایت یہ ہے
مجھ کو وہ دیکھنے آئیں گے مسرت یہ ہے
جان توجاتےہی جائے گی قیامت یہ ہے
کہ یہاں مرنے پہ ٹھہرا ہےنظّارہ تیرا
میں کہاں اور کہا ں آپ کا دربار شہا
اک نکمےکو بھلا کیسے یہ جرت ہو شہا
اپنی نسبت کو میں کرتا ہوں بیاں ایسے شہا
تجھ سے در در سے سگ اورسگ سےہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دُور کا ڈورا تیرا
در بدر پھرتےجہاں میں نہ تمہارے ہوتے
اپنی حالات کےہاتھوں خودہی مارے جاتے
تیری نسبت سےہیں صد شکر پکارے جاتے
اس نشانی کےجو سگ ہیں نہیں مارےجاتے
حَشْر تک میرے گلے میں رہے پٹّا تیرا
میرا گھربار فدا تم پہ اے شاہ بغداد
تجھ پہ مٹ جائےترا سگ اے شاہ بغداد
میری قسمت تری الفت ملی شاہ بغداد
میری قسمت کی قَسَم کھائیں سگانِ بغداد
ہِند میں بھی ہُوں تو دیتا رہوں پہرا تیرا
ہوں گنہ گار سیہ کار خطا کار سہی
نیکیوں سے ہوں میں خالی سہی نادار سہی
میں کہ بدنام سہی خام ہوں ناکام سہی
بد سہی، چور سہی، مجرم و ناکارہ سہی
اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا
در دولت پہ بلا اے میرے عظمت والے
ٹھوکروں سے تو بچا اے میرےحرمت والے
زلتوں میں ہوں پھنسااے میرےرفعت والے
تیری عزّت کے نثار اے مِرے غیرت والے
آہ صد آہ کہ یُوں خوار ہو ِبروا تیرا
تیرے ہی نام سے جانےگا مجھے ہر کوئی
کہ یہ ذیشان ہےبدکار نکما ہے یوں ہی
کام ان باتوں سے کیا مجھ کو بھلا ہوکوئی
مجھ کو رُسوا بھی اگر کوئی کہے گا تو یوں ہی
کہ وہی نا، وہ رضاؔ بندۂ رُسوا تیرا
ایساشیدا نہیں دیکھا جو رضا سا ہو وقیع
فکر ذیشان ہو ئی جس کی رضا کی سی وسیع
کہہ اٹھے لکھ کے قصیدہ لکھو نعت ترصیع
فخرِ آقا میں رضاؔ اور بھی اِک نظمِ رفیع
چل لکھا لائیں ثنا خوانوں میں چہرا تیرا

1221