تیرے احسان و عطائیں اے خدا یاد نہیں
حبِ دنیا میں ہوئے گم کہ رضا یاد نہیں
کھو چکے شرم وحیا غیروں کی تقلید میں ہم
ہوئےہیں نفس کے قیدی کہ بھلا یاد نہیں
ہمیں معلوم ہے کے تیری عبادت لازم
ہائے غفلت کہ کوئی سجدہ ترا یاد نہیں
فکرِ امت میں ترے پیارے بہائیں أنسوں
اور ہم ہیں کہ ہمیں پاس وفا یاد نہیں
غیرتِ دین کو جدت کے ہے ہاتھوں بیچا
اور اس پر ہے یہ عالم کہ جفا یاد نہیں
اپنے اسلاف کی عزت کو بھلایا ہم نے
چاک ہاتھوں سے کی ہے ان کی قبا یاد نہیں
جانا اک دن ہے ہمیں دنیا سے لیکن پھر بھی
ہوگی اس میں بھی جزا اور سزا یاد نہیں
فکر میں بہہ گیا ذیشان ترا کیا ہوگا
صدا قرآں نے دی لا تقنطو کیا یاد نہیں

54