اے خدا تو از پئے شافع امم کردے کرم
مشکلوں کا آفتوں کا بار ہے کردے کرم
تو ہی تو ہےقرب والا ہر قریبی سے خدا
جانتا ہے حال تو کیا حال ہے کردے کرم
دور تجھ سے میں ہوا ہوں ہاۓ بد کاری سبب
غفلتوں کا دل پہ اک آزار ہے کردے کرم
میرے مولا تیرا بندہ ہوں نبھا لے مجھ کو تو
درگزر کر ہر خطا غفار ہے کردے کرم
مجھ کو رسوائی کی آفت سے خدا محشر کے دن
تو بچانا بہر سرور اے خدا کردے کرم
اپنے پیارے کے سبب تو مجھ کو دے دے نیک راہ
ورنہ محشر میں بہت ہی مار ہے کردے کرم
مرشدی غوث الوری کے صدقے کر آسانیاں
زیر کردے ہر بلا مختار ہے کردے کرم
جب تلک زندہ رہوں ایمان کی دولت ہو سنگ
اور در سرکاربھی درکار ہے کردے کرم
وقت آخر مرشدی کے جلووں میں نکلے یہ دم
بس یہی ذیشان کی فریاد ہے کردے کرم

114